تصدیق اقبال بابوکالم

رحیل کارواں (تبصرہ)

”رحیل“ کا مطلب ہے کوچ کرنا، جب کہ ”کارواں“ کا مطلب ہے قافلہ۔ یہ خوبصورت اور معنی خیز نام پختون قوم کے اس ابتدائی قافلے کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں سے اس قوم کی ابتدا ہوتی ہے۔ ”رحیلِ کارواں“ پختون قوم کی تاریخ پہ تحقیق اور تدقیق و تسوید کرنے والے فاضل محقق امین یوسف زئی کی گراں قدر کتاب کا نام ہے، جو تاریخِ پختون، پختو، پختونولی، شعر و ادب اور پختونوں ہی کی ثقافت کے تہہ در تہہ پردوں سے گرد اٹھاتی اپنی نوعیت کی ایک نادر کتاب ہے۔
835 صفحات کی اس ضخیم کتاب پہ الحاج میاں شاہ رحمان مدے خیل چشتی یوسف زئی (شخصیہ) نے بسیط مقدمہ بھی لکھا ہے (جو ہمارے اچھے تعلق دار بھی تھے)۔ ان کے علاوہ مفتی بخت منیر، مولانا امیر محمد توحیدی اور الطاف احمد خان خٹک کے علاوہ پروفیسر شیر زمان سیماب ؔنے بھی کتاب اور صاحبِ کتاب کے حوالے سے اپنی تحاریر میں کتاب کی اہمیت کو بڑھایا ہے۔ ڈاکٹر شیر زمان سیمابؔ نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”اس کتاب میں پشتون کی اصل نسل کے نظریات کے بارے میں محققانہ بحث ہوئی ہے، اور پھر مصنف نے پشتون اور ساتھ ساتھ یوسف زئی کی تاریخ کا اُتار چڑھاؤ، سلاطین، اکابر، پشتون صوفیا و مشائخ کے تذکرے، تمام پشتون قبیلوں کے شجرے، غیر تحریری دستورِ پشتون، پختونولی پر بحث، پرانی اور نئی ثقافت، ضلع بٹ گرام کے حوالے سے شعر و ادب کی سرگرمیاں، وہاں آباد قبیلوں کی تاریخ و تذکرے، ثقافت و دستور کا بیان اور مختلف قبیلوں اور افراد کے شجرہ ہائے نسب منظر عام پہ لائے گئے ہیں۔“
فاضل مصنف کا تعلق ضلع ہزارہ، الائی بٹ گرام سے ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس سے پہلے ان کی متعدد کتب اور مقالے منظر عام پہ آچکے ہیں۔ جن میں ”ہم، ثقافت اور ارتقا“ پختون سامی النسل بنی اسرائیل (مقالہ“ ”پیر روخان اور روخانی تحریک (مقالہ)“ اور ”ملن“ (ناول) شامل ہیں۔ جب کہ پشتو میں ”پاریدلی احساسات“ شاعری ”ژوندیوہ افسانہ دہ“ (افسانوی مجموعہ)، دا قام او قبیلہ (ڈراما)، علاقائی قصے اور لوبے (تحقیق)، د بٹ گرام او الائی اکابرین او مشاہیر (سوانحی کتاب) شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے طلبہ و طالبات کے لیے انگلش گرامر بھی لکھی ہے، جب کہ ”ملک احمد خان یوسف زئی“ کے عنوان سے تاریخی ناول ابھی زیرِ طبع ہے۔ فاضل محقق آج کل پختونوں کی مزید تاریخ کے حوالے سے خصوصاً ”مدے خیل“ کی تاریخ پہ مواد اکٹھا کررہے ہیں۔
آپ ایک ایسے محقق ہیں جو ڈرائنگ روم کی چار دیواری میں بیٹھ کر مختلف کتابوں یا انٹرنیٹ سے مواد اکٹھا نہیں کرتے بلکہ در در جاکر اکابرین، مشران اور متعلقہ صاحبان سے ملتے ہیں۔ تاریخی شواہد اکٹھا کرتے ہیں، پھر انہیں صداقت کی کسوٹی پر پرکھ کر، چھان پھٹک اور نتھار کر حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بڑا صبر آزما، کٹھن اور جانگسل کام ہوتا ہے۔ لیکن کچھ جنونی سرپھرے یہ ادق کام کرجاتے ہیں۔ جن میں ایک امین یوسف زئی بھی شامل ہیں۔
پشتونوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس پہ تہ در تہ پرتیں پڑی ہوئی ہیں۔ ”پشتون کون؟“ نامی کتاب میں پروفیسر پریشان خٹک نے پشتونوں کی ابتدا کے متعلق سات نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے آخر میں انہیں خالد بن ولید کی اولاد قرار دیا ہے، جب کہ فاضل مصنف نے بھی مختلف حوالہ جات کا سہارا لیتے ہوئے پشتونوں کے آبا کو سامی النسل بنی اسرائیل سے جوڑا ہے، لیکن تحقیق کا در ابھی بند نہیں ہوا۔
مذکورہ کتاب ”رحیلِ کارواں“ کے حوالے سے اگر بات کی جائے،تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔
حصہئ اول تالیف کے زمرے میں آتا ہے، جس میں بیشتر واقعات اور مضامین ایسے ہیں جہاں فاضل مصنف نے تدوین و تدقیق پر بڑی محنت اور جاں فشانی سے مواد اکٹھا کرکے پیش کیا ہے۔ اس حصے میں مختلف حوالہ جاتی کتب کی بہتات نظر آتی ہے، جس میں مصنف نے خود کو قدرے اِک پاسے ہی رکھا ہے۔
دوسرے حصے میں سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے تاریخی حقائق، واقعات اور ایسی ہی روایات کو مصنف نے پہلی مرتبہ اپنے انداز میں پیش کرکے اِک نئی اختراع کی بنیاد رکھی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض واقعات اور تاریخی شواہد کے متعلق پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی سفر نامچہ ہے، جو کڑی در کڑی اِک دوسرے کے ساتھ جڑتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے آفتاب احمد خان نے اسے ”ٹور گائیڈ“ بھی کہا ہے۔
تاریخی تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ماہرینِ ارضیات، ماہرینِ لسانیات اور ماہرینِ بشریات و عمرانیات کے علاوہ سیر و سیاحت، ایڈونچر اور کوہ پیمائی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی اس کتاب میں بہت کچھ دلچسپی کا سامان رکھا ہوا ہے۔ بٹ گرام کی ادبی سرگرمیوں کے احوال کے ساتھ ساتھ مختلف شاعروں، ادیبوں، عالموں اور دیگر مشاہیر کے متعلق بھی ان کا ابتدائی ہیولا کتاب میں موجود ہے (جس پہ آنے والا محقق مزید کام بھی کرسکتا ہے)۔ مثلاً اسماعیل گوہر، فخر صحرائی، وزیر جان زخمی، عبدالرحمان شاہین، مولانا جلال، محمود شاہ صاحب، سیف الرحمان، علی اصغر، علی اکبر، سردار اللہ اور غلام ربانی نقشبندی وغیرہ کے سوانحی خاکے اور علمی و ادبی خدمات پر بھی کافی کچھ مواد موجود ہے۔ نیز مختلف خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب بھی خاصے کی شے ہیں۔
الغرض، یہ کتاب پختون ایرا میں کسی حد تک اِک چھوٹی سی انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں ہر کسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ فاضل مصنف کا اندازِ تحریر سادہ، رواں اور دلکش ہے۔ جملوں کی ساخت شبلی نعمانی کی طرح قدرے طویل ہے لیکن شبلی مقفّٰع، مسجع اور پرتفسح نثر لکھا کرتے تھے، جب کہ امین یوسف زئی کی نثر سادہ، سلیس اور رواں ہے۔ اُمید ہے یہ جواں سال محقق اسی طرح اپنی محنتِ شاقہ جاری رکھے گا اور علمی، ادبی اور تاریخی جھولی میں اپنا حصہ ڈالتا رہے گا۔ ہم انہیں اس بہترین کاوش پہ خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں