تصدیق اقبال بابوکالم

رحمت اللہ دردؔ، بریالی کی کتاب کے تناظر میں

کوئٹہ کے سابقہ ڈی سی اور پھر رجسٹرار (ر) عبدالکریم بریالے ہمارے ادبی دوست ہیں۔ وہ علم و ہنر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہیں۔ اُن کے ساتھ گھنٹوں بیٹھے رہنے پہ بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ گاہے بہ گاہے اپنی کتابیں مجھے عنایت فرماتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں انہوں نے یک مشت اپنی پانچ عدد کتب کا سیٹ بذریعہ ڈاک بھیج کر نہال ہی تو کردیا۔ افسر شاہی میں اگر اُردو والا طبقہ لاہور کے پہلے ڈی سی مختار مسعود اور قدرت اللہ شہابؔ پر فخر کرسکتا ہے، تو پشتو میں عبدالکریم بریالی، ہاشم بابر، حق نواز تورخیل اور ساحر آفریدی وغیرہ جیسے بیوروکریٹس نے بھی تو پشتو کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ بریالی کی دیگر کتب پہ نقد و نظر کا اظہار وقت آنے پہ کرتا رہوں گا، سرِ دست اُن کی تصنیف ”رحمت اللہ دردؔ“ پہ آج خامہ فرسائی کا ارادہ ہے۔
رحمت اللہ دردؔ لکی مروت کے رہنے والے تھے۔ پشتو کے جدید غزل گوشعرا میں اُنہیں استاد کا درجہ حاصل ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ استاد (پروفیسر) تھے۔ عبدالکریم بریالی نے اُنہیں پشتو غزل کی نئی روایت و اسلوب کا بانی قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اُن پر 214 صفحات کی ضخیم کتاب لکھ کر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس کتاب کو انہوں نے گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں انہوں نے پشتو غزل کی سنگین کلاسیکی روایت کو دردؔ کی شاعری کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس باب میں انہوں نے پشتو غزل کی پانچ سو سالہ تاریخ کو کمال ہنر مندی کے ساتھ چیدہ چیدہ بیان کیا ہے، اور لکھا ہے کہ کس طرح عربی، فارسی اور سنسکرت سے ہمارا علمی، تہذیبی اور فکری ورثہ جڑا ہوا ہے۔ ہماری غزل بھی عربی و فارسی قصائد کی تشبیب سے نکلنے والی وارداتِ قلبی اور عشقیہ بیان کی دوسری شکل ہے۔ جس کی مثال صاحبِ دیوان شاعر ارزانی کے ہاں موجود ہے۔ پھر خوشحال، رحمان اور حمید کا دور آتا ہے۔ اس کلاسیکی اثر کو بھی دردؔ اپنے اندر سموتے ہوئے اعتراف میں لکھتے ہیں:
ما بہ کلہ ھم الہام منلے نہ وے
کہ دیوان می د رحمان لوستلے نہ وے
کلاسیکی روایات سے ملنے والی معنی آفرینی اور رنگِ تغزل کے علاوہ ہندوستانی طرز کی صنعتوں اور صنائع بدائع کی روایت کو دردؔ کس طرح استعمال کرتے ہیں ان دو شعروں میں ملاحظہ فرمائیں:
د اشنا قصے بہ ولی خوگے نہ وی
خوند د شونڈو ئے شامل شی پہ قصو کے
تا چی تورے کڑلے لا نشہ نشہ شوے
جوڑ شراب دے وو لڑلی پہ رنجو کے
بریالی نے دردؔ کی شاعری کی سلاست اور روانی پہ بھی خوب بحث کی ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:
دا دَ چا حکمرانی دہ
دَ سرونو ارزانی دہ
ہم زما پہ سر غوبل دے
ہم زما پہ سر خانی دہ
یا یہ کہ
غم چی د ھیس شی نہ کڑی ہغو خوندونہ واخستل
ژوند نہ خو واللہ چی لیونو خوندونہ واخستل
دردؔ نے عشقیہ اظہار کو اپنے جداگانہ انداز میں پیش کیا ہے اور اس بات کو بریالی نے نوٹ کرتے ہوئے کتاب میں بارہ صفحات کا مضمون لکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی انفرادیت کی وجوہات اور انداز پہ بھی بسیط انداز میں بحث کی ہے۔
اک باب میں دردؔ کے آخری دور کی شاعری کے جمالیاتی پہلوؤں سے پردے سرکائے گئے ہیں، جب کہ ان کی انفرادی سادگی اور مقصدیت کی خاس شاعری پہ بھی بحث کی گئی ہے۔ آخر میں اُن کی اردو شاعری کے تذکرے کے بعد ان کی شخصیت، اجتماعی زندگی اور معاصرین کا ذکر ہے۔ سب سے آخر میں اُن کے کلیات پر بھی طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی یہ دردؔ کے فن اور شخصیت کا بھر پور تحقیقی مقالہ ہے جو مستقبل کے محققین کے لیے سدِ راہ ہوگا۔
دردؔ کی کتب میری نظر سے تو نہیں گزریں، البتہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد اُن سے اُنسیت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ ان کی ہمہ گیر شاعری میں بڑی گہرائی و گیرائی موجود ہے۔ وہ کون سا تار یا ساز ہے جسے انہوں نے اپنی انفرادیت کے بل بوتے پہ نہ چھیڑا ہو۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز، لطیف احساسات، معنی خیز محاکات اور سلاست و ایجاز ایسی صفات ہیں جو بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہیں۔
بقولِ بریالیؔ ”انہوں نے حسن اور رومان کا حقیقی فلسفہ جس نزاکت، شیریں زباں اور گہرے خیال کے ساتھ پیش کیا ہے یہ اپنی مثال آپ ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نئے اسلوب کے بانی اور نئی غزل کے بابا ہیں۔“
بریالی مزید لکھتے ہیں کہ ”جب نادیہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے دردؔ تخلص ہی کیوں چنا؟ تو انہوں نے کہا کہ ”انسانیت کا درد میرا ہی تو درد ہے۔“
گویا دردؔ کا ذاتی اور استعاراتی غم ذاتی ہی نہیں کائناتی بھی ہے۔ انہوں نے داخل کی آنکھ سے خارج کو دیکھا، اور اسی کا اظہار ایسے منفرد اور اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے کہ جس میں انفرادیت، ایمائیت اور معنی خیزیت جیسی تمام صفات موجود ہیں، لیکن ناقدری زمانہ کے ہاتھوں لکھتے ہیں:
د چا د پارہ چی غزل لیکمہ
زہ ھاغہ خلقو ہم لوستلے نہ یم
دردؔ نے اُردو میں بھی مشق سخن کی تھی۔ وہ میرؔ سے متاثر تھے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اتنی حیا تو دردؔ میرے دوستوں میں تھی
آنکھیں مِلیں تو ہاتھ سے پتھر گرا دیے
اور یہ بھی کہ
وہ اس خلوص سے ملتا تھا باربار مجھے
نہ کرتے اُس سے محبت تو یار کیا کرتے
پوری کتاب علمی، ادبی اور تاریخی حوالے سے اِک خزینہ ہے۔ مستشرقین سے لے کر مشرق و مغرب کے اکابرین تک کا ذکر اس میں موجود ہے۔ جس سے بریالی کا وسیع مطالعہ جھلکتا اور چھلکتا نظر آتا ہے۔ یہ کتاب ”ملا اخوند کاکڑ فاؤنڈیشن کوئٹہ“ نے شائع کی ہے۔ کتاب کا اختتام جن درد ناک اشعار پہ ہوا ہے۔ کالم کا اختتام بھی انہی اشعار پہ کرتا ہوں۔
دردہ! زما غوندی بے زویہ او بے ورورہ انسان
پہ خپل وطن کی پہ ڈک کور کی وی بے کورہ انسان
دا خو لہ خاورو نہ پیدا دے، د زغملونہ دے
بیا بہ سوک سہ وو کہ جوڑ شوے وے د اُورہ انسان
گوتہ پہ خلہ کی ورتہ پاتی شی لیوان د زنگل
کلہ چی اخلی انتقام دردہؔ! لہ ورورہ انسان

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں