تصدیق اقبال بابوکالم

سمیع الدین ارمان کی کرکشن

اعراف پرنٹرز والے ایاز اللہ ترکزے ہمارے دوست ہیں۔ ہم جب بھی پشاور جائیں، اُن کی محبت ہمیں کشاں کشاں محلہ جنگی کھینچ لے جاتی ہے۔ وہ محبتوں سے نہال کرنے کے بعد ادارے سے چھپنے والی چند ایک کتابیں بھی تحفتاً دے دیتے ہیں، جن میں زیادہ تر تو پشتو شاعری کی ہوتی ہیں۔ ہم ٹھہرے نثر کے بندے، اب ہم مروت سے اُنہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کتاب دو، فلاں نہ دو۔
”کرکشن“ بھی اُنہی نے چھاپی، لیکن ہمیں نہ دی۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے کرم فرما ہمایوں مسعود کا جنہوں نے محبت سے ہمیں عنایت کی، ورنہ 300 کی خریدنی پڑتی۔ اس لیے بھی کہ آج کل اس کتاب کا ڈنکا چار دانگ بج رہا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ واہ واہ، بلے بلے کہہ رہے ہیں۔ میرے دوست روح الامین نایاب صاحب تو دو باتیں اِدھر اُدھر کی کرنے کے بعد تیسری بات اسی کی چھیڑ دیتے ہیں۔ اس کے مصنف ایڈورڈز کالج کے پروفیسر سمیع الدین ارمانؔ ہیں، جنہیں میں نے پہلی بار محبی ہمایوں مسعود کے افسانوی مجموعے ”رشتے“ کی تقریب رونمائی میں دیکھا اور سنا۔ میرے قریب میرے انگریزی کے پروفیسر دوست سبحانی جوہر بیٹھے ہوئے تھے (جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے) میں نے ٹہو کا مار کر اشارہ کیا کہ صاحب کیسے ہیں؟ تو اُن کا میرؔ کی طرح اثبات میں سرہلا دینا ہی اُن کی علمیت کے اعتراف کے لیے کافی تھا۔ پچھلے دنوں اِک لسانی سیمینار کے سلسلے میں وہ رسورس پرسن (Resource Person) کی حیثیت سے جہانزیب کالج تشریف لائے تھے۔ ہم نے اُنہیں وہاں بھی سنا۔ اُن کی اب تک پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں ”تنقیدی تعبیرات“، ”تنقیق“، ”زرپاش“، ”باتیں ہمارے باچاخان کی“ اور ”کرکشن“ شامل ہیں۔
بقول حیات روغانےؔ ”کرکشن“ انگریزی کے کریٹیسزم (Criticism) اور فکشن (Fiction) کا درمیانی لفظ ہے۔ بالکل اِسی طرح جس طرح افریقہ اور ایشیا کے ممالک کو ”افریشیائی ممالک“ یا یورپ اور ایشیائی کو ”ایروایشیا“ کہتے ہیں۔ کرکشن اور تنقیق جیسی نئی ادبی اصطلاحات سمیع الدین ارمانؔ ہی کی اختراعات ہیں (جس پہ کالم کے آخر میں، مَیں اپنی رائے دوں گا)۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئی نے ”کرکشن“ پہ اپنے طویل اور پُرمغز مقالے میں لکھا ہے کہ ”ادب، تاریخ سے زیادہ معتبر حوالہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ نسلوں کی علمی تشنگی بجھانے کے لیے تحقیق و تنقید کے ایسے معتبر حوالے (سکول آف تھاٹس) ضرور موجود ہونے چاہئیں۔
سمیع الدین ارمانؔ نے کہانی سقراط سے ماقبل اساطیر سے شروع کی۔ یہ کہانی نابینا ھومر (Homer) کی ”اوڈیسی“ سے ہوتی ہوئی ورجل (Virgil) اور گوئٹے (Geothe) تک آتی ہے۔ یہاں سے ”سوٹیلانا الیگؤچ (Svetlana Alexievich) تنقیدی ادب کو اِک نیا رُخ دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ”ادبی دنیا میں اب تک کے درباری نقادوں کی تحریریں تو ادب کے زمرے میں بھی نہیں آتیں۔ یہ تو دستاویزات کے ادھورے نمونے ہیں۔“ بعد ازاں وہ لاطینی امریکہ کے جنگی واقعات کو پختون بیلٹ سے مماثل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”اگر وہاں ان جنگوں کے رد عمل پہ بڑا ادب تخلیق ہوسکتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہمارا ادیب ان واقعات کی بنیاد پر بڑا ادب تخلیق نہیں کرپارہا؟“
یہ اِک ایسا سوال ہے جو بڑا گہرا اور غور طلب ہے۔
٭ ”کرکشن“ کا پہلا مضمون برطانیہ کی ورجنیا وولف (Virginia Woolf) کی سٹریم آف کانشسنس (Stream of conciousness) کے حوالے سے ہے۔ شعوری تجربے کے متنوع بہاؤ کو ”شعور کی رو“ کہتے ہیں، جس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے۔ خود کلامی اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ ورجنیا کی زیادہ تر تحریریں اسی تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔
٭ دوسر امضمون معروف امریکی ناول نگار ہمینگوئے (Hemingway) اور اُس کے فن کے متعلق ہے، جس کا ناول ”بوڑھا اور سمندر“ (Old man and the sea) بے حد مقبول ہے۔ اس مضمون میں اس کی آئسبرگ تھیوری (Iceberg Theory)کا ذکر ہے، جس میں سچ، سچ سے بھی زیادہ شدت سے بیان کیا جاتا ہے۔
٭ تیسرا مضمون جارج آرویل (George Orwell) کے ڈسٹوپئین (Dystopain Fiction) کا ہے، جس میں ساختیاتی تشدد، ریاستی جبر اور جھوٹی سیاست کی پرتیں واکی جاتی ہیں۔ گویا یہ اک سفاک علامتی تنقید کی راہ ہے۔
٭ چوتھے مضمون میں کافکا (Kafka) کے وجودی اور غیر وجودی فلسفے سے پردے سرکائے گئے ہیں۔ ہندوؤں کا فلسفہ تناسخ، مسلمانوں کا موت کے بعد جینا اس کی مثالیں ہیں۔ اردو میں انتظار حسین نے اِسی تناظر میں اپنے علامتی افسانے لکھے ہیں۔
٭ پانچویں مضمون میں گبریل گارسیا (Gabriel Garcia) کے فکشن کی انفرادیت پہ بات ہوئی ہے۔
٭ چھٹے مضمون میں میلان کنڈیرا (Milan Kandera) کے ناولوں کی حکمت عملی ہے، تو ساتویں مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ادبِ عالیہ میں ایک مرکزی خیال پر متعدد اظہاریے موجود ہیں۔ اس مضمون میں مارلو، گوئٹے اور تھامس مان کے کلاسک فن پاروں کا موازنہ کیا گیا ہے۔
٭ آٹھویں مضمون میں بتایا گیا ہے کہ فکشن، عملی سائنس کے لیے کس طرح راہیں کھولتا ہے۔
٭نویں مضمون میں ”پاولو کوئلو“ (Palulo Coelho) کے مشہور ناول ”وال کریز“ (The Valkyries) کا ذکر ہے، جو جرمن متھالوجی کے متعلق ہے۔
٭ دسواں مضمون بھی ”پاولو کوئلو“ (Polulo Coelho) کے فن ہی کے متعلق ہے۔ پاولو کا الکیمسٹ (Alchemist)نامی ناول دنیا کی 80 زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کی 150ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
٭ کتاب کا آخری مضمون “Sophie’s world” یعنی ”سوفی کی دنیا“ کے متعلق ہے۔ ”جوسٹن گارڈر“ (Jostein Gaarder) کا یہ ناول بھی دنیا کی 60 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس میں قصہ در قصہ کی تکنیک استعمال ہوئی ہے، جس میں گھمبیر فلسفیانہ گتھیوں کو آسانی سے سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
”کرکشن“ جس میں دنیا بھر کے عالمی ادب کے شاہکار فن پاروں سے عرق نچوڑ کر کتابی شکل میں یکجا کیا گیا ہے۔ یہ پشتو زبان و ادب کے لیے اِک تحفہ ہے۔ پشتو زبان میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ قلندر مومند نے ”بوطیقا“ (Poetecs) کا ترجمہ کرکے اِک ہیولا ضرور رکھا، لیکن یہ جدید اصطلاحات اور اختراعات سمیع الدین ارمانؔ ہی کے نصیب میں تھیں، جس پہ ہم اُنہیں ڈھیروں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
اب آخر میں مجھے سچ کہنے دیجیے کہ لفظ ”کرکشن“ کے حوالے سے ہم قارئین یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اس میں ”تنقید“ اور ”فکشن“ کو مکس کرکے اِک نئی صنفِ ادب کی راہ نکالی گئی ہوگی، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا (یا میری موٹی عقل سمجھ نہ پائی ہوگی)۔
یہ کتاب عالمی ادب کے بہترین تعارفی ترجمے تو ہوسکتی ہے، نئی صنف ادب نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں