امجدعلی سحابؔکالم

سردار جی اور رمضان پیکیج

قارئین کرام، ٹویٹر پر دِکھنے والی اُس عام سی تصویر میں ایک سردار جی کی دکان نظر آ رہی تھی۔ غور کرنے اور دکان کا جائزہ لینے پر آپ کو محسوس ہوتا کہ وہ کوئی بڑی دکان نہیں۔ وہ کوئی سپر سٹور یا مال نہیں، وہ ایک چھوٹی اور عام سی دکان تھی، مگر اس کے اندر کھڑا دکھائی دینے والا سردار جو اپنی مخصوص پگڑی باندھے ہوئے تھا، ہر گز چھوٹا انسان نہیں تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو چلیے، پہیلیاں نہیں بجھواتے اور مطلب کی بات بتا دیتے ہیں۔
تصویر میں نظر آنے والی اُس چھوٹی سی دکان کے مالک (جس کا نام فوری طور پر معلوم نہ ہوسکا) نے ایک نیک عمل اور بڑے دل کی وجہ سے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔ آپ اگر تصویر کا بغور جائزہ لیں، تو دکان پر کھڑے دو افراد سردارجی کے ساتھ محو گفتگو دکھائی دیں گے۔ ساتھ ہی ایک چارٹ سا لگا دکھائی دے گا جس پر لکھا ہوگا: ”رمضان پیکیج۔“ اس کے بعد تصویر کو ”زوم اِن“ کرلیں، تو پتا چلتا ہے کہ لوبیا جس کی بازار میں قیمت 160روپیہ تھی، لیکن سردار جی اسے رمضان کے تقدس کی خاطر 150 روپیہ کے عوض بیچ رہے تھے۔ روح افزا 200 کی جگہ 190، چھولے 180 کی جگہ 160، وعلیٰ ہذا القیاس۔
تصویر سوشل میڈیا پر دینے والے ایک سماجی کارکن اور صحافی ضیاء الرحمان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس تصویر کے ساتھ لکھا تھا:”A Sikh Grocer in Jamrud Bazar (Khyber) in KP subsidizes rates for Muslim Costumers in Ramdhan.”
تصویر شیئر کرنے کی دیر تھی کہ اس پر ہر طرف سے جے جے کار کی بارش شروع ہوئی۔ دوسری طرف مجھے خیال آیا کہ ایک ہمارے کلمہ گو مسلمان ہیں، نمازِ پنجگانہ کا اہتمام کرتے ہیں، داڑھی اور سر کے بالوں کو روزانہ صبح سویرے تیل دے کر چمکاتے ہیں، عِطر لگانا سنتِ نبویؐمانتے ہیں، پائنچے اٹھا کر خراماں خراماں چلتے ہیں، نظر نیچے رکھتے ہیں، مگر ساتھ ساتھ رمضان جیسے بابرکت مہینے کو کمائی کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائی کی چمڑی ادھیڑنے میں کوئی کسر اٹھا بھی نہیں رکھتے۔
قارئین کرام! میں تو سمجھتا ہوں کہ سردار جی کی وہ ایک عدد تصویر اور اس کا ذکر شدہ نیک عمل ہم جیسے بے عمل اور گفتار کے غازیوں کے منھ پر کسی زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں