ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

اگر اجازت ہو، تو…… (گذشتہ سے پیوستہ)

یہ سرمایہ داری کہاں کا اسلام ہے؟ کیا اس برائے نام جمہوریت کو آپ اسلام سمجھتے ہیں؟ خدارا، ڈنڈورا نہ پیٹیں! حکمران جواب دیں۔ ہزاروں، لاکھوں ایکڑ زمین جو جاگیرداروں، وڈیروں، خوانین، سرداروں، چوہدریوں اور نوابوں وغیرہ کے قبضہئ مالکانہ کے ساتھ موجود ہے، کیا وہ سب کچھ جائز اور اسلامائزڈ ہوچکا ہے؟ کیا سرمایہ داری اور جاگیر داری کی بھی کوئی تاویل آپ کے ذہن میں موجود ہے؟ قرآن کو اٹھائیں، خود پڑھیں اور سمجھیں، سیاق و سباق سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کوئی ایک بھی اس طرح کا نام نہاد نظام آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ کیا اسلام میں بے حد و بے حساب مال و دولت جمع کرنا اور اس کو گننا جائز ہے؟ کیا مال جمع کرنا ممنوع نہیں۔ کیا ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ حلال ہے؟ کیا یتیموں، محروموں، مساکین، اقربا، سائلین اور مسافروں کے معلوم حق کو کھانا جائز ہے اور ان پر جبر اور تنگی لانا جائز ہے؟ کیا ایسا کرنے والا دینِ اسلام کا منکر اور جھوٹا نہیں؟
جب حکومت سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی پراپرٹی، مارکیٹوں اور دیگر املاک و وسائل، پراڈکٹس وغیرہ پر ٹیکس نافذ کرتی ہے، تو اس کا بالواسطہ اثر عوام پر نہیں پڑتا؟ ملک کے مقتدر طبقات اور اشرافیہ، سیاست دان، شریف، زرادری جیسے پارلیمنٹیرینز ملک کے ٹیکس پیئر کی مد میں کتنا ٹیکس ادا کرتے چلے آرہے ہیں؟
جناب والا، میرا ماننا ہے کہ جب تک ہم سامراجی ممالک اور ان کے دجالی نیٹ ورک سے نہیں نکلتے، اس وقت تک اِفاقہ کے کوئی چانسز نہیں۔ نام نہاد جمہوریت کی بجائے کوئی اصل جمہوری نظام لایا جائے، پھر ہماری نیا پار ہوگی۔ ڈکٹیٹر شپ بھی دیکھ لی، اور بادشاہت بھی، مزدوروں کی مطلق العنانی بھی دیکھ لی اور مذہبی و قومی اشتراکیت بھی، کہیں بھی غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
کسی دیگر نظام کے لیے بھی تھیوری پیش کریں، کہ جس پر ایمان اور صرف ایمان ہے، وہ نظام تو لانے سے من حیث القوم ہم رہے۔ دعوؤں، اقوال، روایات وغیرہ سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اس سسٹم کی خرابی میں قدما، سلف سے لے کر علما و سیاست دان تک سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔
معیشت کی سائنسی طور پر فی زمانہ تشریح و توضیح کیا جانا اور موجودہ خراب حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ حکمران مہربانی کرکے سسٹم کے بنیادی نقائص، خرچ، اخراجات، آمدن پر نظریں مرکوز کرکے اس کو کنٹرول کرنے کی آرا اور تجاویز پیش کریں۔
ضمنی طور پر عرض ہے کہ اخراجات اگر آمدن سے زائد ہیں، تو خسارہ ہے۔ آمدن اگر اخراجات کے برابر ہے، تو متوازن ہے اور اگر اخراجات آمدن سے کم ہیں، تو بچت ہے۔ یہ سیدھا سادا کلیہ ہے۔ اس میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ سٹاک ایکسچینج اور ملکی اکانومی کا حساب تو کسی ماہرِ معاشیات ہی کو معلوم ہوگا، لیکن اتنا تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ ڈنڈی کہاں ماری جا رہی ہے؟ جب خرچ زیادہ اور آمدن کم ہوگی، تو لازمی بات ہے ہم قرضوں میں ڈوبیں گے۔ بے دست و پا ہوکر معیشت کو سنبھالا کیسے دیا جاتا ہے، سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ صاف اور واضح بات یہ ہے کہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی اس ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم ترجیحات کیا ہیں، یہ حکومت کو خود متعین کرنا ہوگا؟
مَیں سمجھتا ہوں کہ اداروں کی ساخت میں بنیادی تبدیلی اور میثاقِ معیشت ناگزیر ہوچکا ہے۔ سرِدست حکومت کو ہزاروں مسائل کو چھوڑ کر دو چار مسائل کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت معیشت، تعلیم اور صحت پر فوکس کرے۔ قوم اگر تعلیم یافتہ اور با شعور ہوگی، تو حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرسکے گا۔ صحت مند قوم بنائیں۔ افرادی قوت کو مین سٹریم میں لاکر ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے۔ ہاں، ایک جملہئ معترضہ عرض ہے کہ ”دو قومی نظریہ“ والی داستان 71ء میں سقوطِ بنگال کے ساتھ دفن ہوچکی ہے۔ پاکستان میں چار بڑی قومیں رہائش پذیر ہیں اور جو ایک فیڈریشن کے تحت اپنے اپنے حقوق کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ وفاق کو مضبوط اور صوبائی حقوق کو ادا کر دینا ہی فیڈریشن کی طاقت ہے۔
قارئین، مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس وقت انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی وغیرہ کو فی الحال ایک سائڈ پر رکھیں۔ ساتھ دفاعی اخراجات کو کنٹرول کریں۔ اسٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی کو ختم کریں۔
آخری بات، قرآن کریم کو دستور بنائیں۔ افسوس، پتا چلا کہ اس کے لیے کوئی تیار نہیں۔ خدارا، حساب کا دن نزدیک ہے۔ عوام کو مزید اندھی عقیدتوں سے دور ہی رکھیں، تو بہتر ہوگا۔
و ما علینا الاالبلاغ!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں