ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

پس منظر و پیش منظر

سوچتا ہوں کہ اس مملکتِ خداداد کا کیا بنے گا؟ جب ایک ریاست داخلہ اور خارجہ محاذ پر بے پناہ مسائل میں گری ہوئی ہو، اور ہر وقت دشمن کی سازشوں کا سامنا ہو، کوئی ڈالر کی پیشکش کرتا ہو، تو کوئی اکنامک زونز بنانے کی بات کرتا ہو،کسی کو اللہ واسطے بیر ہو اور کسی کو مداخلت ختم کرنے کا غم کھائے جا رہا ہو!
مصالحانہ سیاست مگر بہ امر مجبوری کرنا پڑتی ہے۔ کسی کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور کسی کو عملی اقدامات کا یقین دلایا جاتا ہے۔ دیگر وجوہات جو بھی ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مملکت کی خراب معاشی اور اقتصادی صورتحال میں یہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ پاکستان کو اپنی عزت و وقار کا خیال کرنا ہوگا۔ میرا خیال ہے مذکورہ تمام اقدامات ضروری ہیں، لیکن ان پر کلی طور پراکتفا کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ اپنے ملک کی داخلی معاشی اور اقتصادی طاقت کو سنبھالا دیے بغیر مشکلات ختم نہیں ہو سکتیں۔ یہ بھی غلط نہیں ہے کہ پاکستان کے اپنی داخلہ و خارجہ محاذ پر کمزوریوں کے باوجود کچھ امور مثلاً جیو سٹریٹجک اور جیو پولی ٹیکل امور پر یہ اپنی ایک واضح پوزیشن رکھتا ہے اور اس کو کیش بھی کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے ممالک ہماری متذکرہ پوزیشن سے فائدے اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ بعض امور پاکستان کے لیے نقصان دہ اور کچھ فائدے مند بھی ہیں۔ اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
قارئین، مملکتوں کے درمیان یاری اور دوستی کے تعلقات باہمی طے شدہ شرائط پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس سے کسی بھی ملک کو مفر نہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جب تک سٹیٹس مین اپنے ملک کے دیرینہ مسائل کا لحاظ نہیں رکھتا اور ملکی قانون کو اپنی خواہشات کے تابع بنادیا جائے، تو ایسے حالات میں بہتری کی امید کم ہی ہوتی ہے۔ اس پر باقاعدہ ایک طریقہئ کار کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے عوام کی خواہشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ادارے بھی ان قواعد و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔دراصل قومیں اپنے لیے نمائندے اس لیے چنتے ہیں کہ بعد میں وہ ان کے مسائل کو جدید طریقوں سے حل کرنے کا قرینہ سوچ لیں۔ قانون بنائے جاتے ہیں۔ اداروں کی تنظیم کار کو آسان اور منطقی بنائے جانے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ان کو وسائل فراہم ہوتے ہیں اور متعلقہ فیلڈ کے ایکسپرٹس کو لایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترقی اور عوامی تعلق کو مضبوط تر بنا نے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ حکومت اور عوام کا تعلق ان اداروں اور قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے توسط سے ہوتا ہے۔
خیرم یہ تو ہوایک ضمنی سی بات تھی، اب اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ دراصل پاکستان کے داخلہ اور خارجہ محاذ پر سیاست کے چیلنجز کے علاوہ ملکی اقتصادی اور معاشی حالت دگرگوں ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی ترقی رُکی ہوئی ہے۔ جب تک مذکورہ حالت ایسی رہے گی، ہزیانی کیفیت میں فیصلے کیے جاتے رہیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں اس لحاظ سے فیصلے کرنا دور ر س نتائج کے حامل عمل نہیں ہوتا۔ مجموعی نتائج قوم کے بر خلاف آتے ہیں۔ اس طرح دہائیوں پر اس کے اثرات محیط ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی خارجہ محاذ پر فیصلے لینے سے پیشتر عوام او رقانون ساز اسمبلی کو اعتماد میں لینا سود مند ثابت ہوتا ہے۔
جب کسی امر پر مشورہ سے کام لیا جائے، تو اس میں خیر کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ بے شک افغان پیس پراسس میں حصہ لیں۔ امریکہ کو محفوظ راستہ اس قیمت پر ملنا چاہیے جس سے ہمارے ملک کے مجموعی اکنامی کو فائدہ ہو۔ یہ ایک بلین ڈالر امداد کے ساتھ مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں خیرات نہیں بلکہ کاروبار اور جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات پیش منظر کوئی اور ہوتا ہے اور پس منظر میں کسی اور چیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ خطے کی گھمبیر صورتحال اس کی غمازی کرتی ہے کہ کیسے ایران کے خلاف جنگ کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ سعودیہ کو امریکہ کے پانچ سو فوجی اہلکارمل چکے ہیں۔ آبنائے ہرمز میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے دوست ممالک سے گفت و شنید باقاعدہ جاری ہے۔
اُدھر ایران نے امریکہ کا ایک ڈرون مار گرادیا ہے۔ مبینہ طور پر آئل کارگو کو تباہ کر دیا ہے اور اب برطانیہ کا ایک کارگو پکڑا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ایسے کسی بھی سازش کا حصہ بننا لازمی طور پر خرابی اور ناعاقبت اندیشی ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ ”نائن الیون“ کے امریکہ کی جنگ میں صرف ایک فون کال پر کودنا حماقت نہیں تو اور کیا تھا؟ کیا اس کے لیے کوئی پلاننگ کی گئی تھی، یا صر ف یہ ایک فردِ واحد کا کام تھا؟ کوئی شرائط نہیں تھیں، بس ہم فرنٹ لائن اتحادی بننے کے لیے بے تاب تھے۔ اس کا اثر کیا ہوا؟ اب سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ معیشت، انفراسٹرکچر وغیرہ تباہ ہوا۔ سکول، کالج تباہ ہوئے۔ تقریباً سارا خیبر پختونخوا دہشت گردی کے عفریت کا شکار ہوا۔ باقی ملک پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے۔ بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ستر ہزاربے گناہ افراد کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوئے، لیکن کلیجے کوٹھنڈک نصیب نہ ہوئی۔ بس یہی بار بار سنا کہ ”آپ نے کچھ نہیں کیا۔“ بس ”ڈومور“ کی رٹ لگائی گئی۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ملکی خود مختاری کو اونے پونے داموں کیوں بیچا گیا؟ پڑوسی مفت میں دشمن بن گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کو چالیس سال مہمان نوازی کے طعنے دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ وہی ملک اب یہی کہتا ہے کہ آپ کی ملک سے در اندازی ہورہی ہے۔ ہم لاکھ کہیں کہ ”بھائی، ہمارا اپنا دہشت گردی کا مسئلہ ہے!“ لیکن ان کو ہماری بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ تو بس یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے راستے اور اڈے فراہم کیے ہیں اور ہماری وجہ سے ان کا ملک تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ ایران اور امریکہ کی جنگ میں غیر جانب داری میں ہی عافیت ہے۔ اپنے ملک کی معیشت پر فوکسڈ رہنا چاہیے۔ اپنے داخلہ سیاسی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان اور انڈیا کے ساتھ ساتھ ایران کے بارڈر بھی غیر محفوظ ہوجائیں اور ہم ہر طرف سے مسائل میں گھر جائیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں