”شعر او شعور“ یونیورسٹی آف ملاکنڈ شعبہ میتھس کے پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعید صاحب کا شعری مجموعہ ہے، جس کی تقریب رونمائی 04 اگست بروزِ اتوار 2019ء کو ”مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ“ کے زیرِ اہتمام میاں نورحسن کے ہجرہ برہ درشخیلہ (چینالہ) میں ہوئی۔ مجھے اس تقریب میں شرکت کی دعوت میرے استادِ محترم ساجد ابو تلتان صاحب نے دی۔ لہٰذا میں مقرر وقت پر اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچا، جہاں ”مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ“ کے اراکین نے ہمارا استقبال کیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے شعبہئ پشتو کے پروفیسر اور پشتو زبان و ادب کے درخشاں ستارے پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسف زئی صاحب تھے۔ صدرِ محفل ”مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ“ کے صدر محترم خیرالحکیم وکیل حکیم زے صاحب تھے۔
یہ پُروقار تقریب دوپہر دو بجے شروع ہوئی جس میں پشاور، سوات اور شانگلہ کے علم و ادب سے تعلق رکھنے والے شعرا و ادبا، تعلیم سے وابستہ ڈاکٹرز، پروفیسرز، اساتذہئ کرام، شعر و ادب کے شوقین اور علاقے کے معززین نے کثیر تعداد میں شرکت کی، جن میں پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے المعروف باچا لالا، پروفیسر افضل خان، پروفیسر شہاب الدین، پروفیسر محمد اقبال، پروفیسر حضرت علی، لیکچرار احسان یوسف زئی، حنیف قیس صاحب، ساجد ابو تلتان، برکت علی برکت، میاں علی نواب پریشان اور دیگر شریک تھے۔
اسلامی روایات کی رو سے تقریب کا آغاز مولانا داؤد صاحب نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا، جس کے بعد مہمانِ خصوصی جناب اباسین یوسف زئی صاحب اور ”شعر او شعور“ کے خالق ڈاکٹر سعید احمد سعید صاحب کو ہار پہنائے گئے۔ اس کے بعد کرم مندوخیل کو کتاب پر مقالہ پڑھنے کے لیے سٹیج سیکرٹری حمید الرحمان ہمدرد نے دعوت دی۔ حیدر علی حیدر نے ترنم میں نظم پڑھی۔ یوں برکت علی برکتؔ، احسان یوسف زئی مقالوں اور میاں علی نواب پریشانؔ، نجیب اللہ حسرتؔ بہ زبان عبدالباسط، فضل موجود شاکرؔ، عبدالحق فرہادؔ اور جہان زیب دلسوزؔ نے نظمیں پڑھنے کے لیے یکے بعد دیگرے سٹیج کا رُخ کیا۔ نجیب اللہ، حمید الرحمان، حضرت علی مشال اور ساجد ابوتلتان وقتاً فوقتاً سٹیج ایک دوسرے کو حوالہ کرتے رہے۔
نظمیں اور مقالے پڑھنے کے بعد کتاب ”شعر او شعور“ اور خالقِ کتاب ڈاکٹر سعید احمد پر تاثرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں سب سے پہلے ساجد ابو تلتان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب آئے۔ انہوں نے پشتو زبان و ادب پر تفصیلی روشنی ڈالی اور ساتھ ساتھ پروفیسر سعید احمد صاحب کو ان کی گراں قدر خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ محمد حنیف قیسؔ صاحب اور محمد امین حاجی صاحب نے بھی اپنے تاثرات بیان کیے۔ پنجاب سے آئے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال جنہوں نے اردو زبان میں شعر و ادب پر وہ بحث کی جو اس سے پہلے میں نے کسی سے نہیں سنی ہے۔ انہوں نے شعر و شاعری کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ اس طرح پروفیسر افضل خان جو خالقِ کتاب کے دیرینہ دوست ہیں، نے ان کے بارے میں مختصر مگر جامع بحث کی۔ پشتو زبان و ادب کے ڈاکٹر اور یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے پروفیسر ڈاکٹر نوید البصر صاحب نے بھی علم و ادب اور سعید احمد صاحب کی زندگی اور کتاب پر روشنی ڈالی۔
تاثرات کا سلسلہ ختم ہوتے ہی کتاب کی رونمائی کا مرحلہ شروع ہوا۔ مہمانِ خصوصی، صدرِ محفل اور خالقِ کتاب نے کتاب ”شعر او شعور“ کی رونمائی کی۔ مصنف ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے مہمانِ خصوصی کو اپنا کتاب بطورِ تحفہ پیش کیا۔
اس بہترین ترتیب والی کتاب میں مصنف نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، عشقِ رسولؐ، پشتونولی، قام پرستی اور محبت کی تلقین پر خصوصی توجہ دی ہے۔ کتاب کی رونمائی کے بعد مصنف ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے ڈائس پر آکر تمام حاضرین مجلس اور بالخصوص ڈاکٹر اباسین یوسف زئی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب کے آخری مرحلے میں مہمانِ خصوصی اباسین یوسف زئی نے مصنف ڈاکٹر سعید کی اکیڈمک قابلیت، ان کے علمی و تدریسی سفر، ان کی کتاب اور ان کی شعر و شاعری پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے بتایا کہ مصنف نے پشتو زبان و ادب کو جو جلا بخشی ہے۔ وہ قابل ستائش ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف نے اپنے خطاب میں پختون قوم کے زوال کے کچھ اسباب بتائے جن میں نفاق اور پشتو زبان و ادب سے نفرت قابل ذکر ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر صدرِ محفل وکیل حکیم زے صاحب نے تمام آنے والے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ پانچ بج کر تیس منٹ پر یہ پُروقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
قارئین کرام! 187 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر سعید احمد صاحب کا شعری مجموعہ ”شعر او شعور“ جو کئی موضوعات اور اصناف پر مشتمل ہے، ڈاکٹر صاحب کے احساسات اور جذبات کا بہترین تحفہ ہے۔
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس