اختر حسین ابدالیکالم

اک شخص دلربا سا

جب مَیں نے اپنے استادِ محترم ساجد ابوتلتان کے توسط سے خیرالحکیم المعروف وکیل حکیم زئی سے ملاقا ت کی، اور اپنے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے ا ن کی سیاسی وادبی خدمات کو مقالے کا جامہ پہنایا، تو میرا ان سے ایک روحانی رشتہ سا پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا، اور یوں میرااور وکیل حکیم زے صاحب کے ملنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔
ابو تلتان صاحب سے مَیں نے وکیل حکیم زے صاحب کے چھوٹے بھائی پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا، لیکن ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ عیدالاضحی کے دوسرے دن جب وکیل حکیم زئی صاحب کو عید کی مبارکباد دینے کے لیے ایک دوست کے ساتھ ان کے حجرہ برہ درشخیلہ پہنچا، تو گیٹ میں داخل ہوتے ہی حکیم زئی برادران کے اردگرد ایک ہجوم دیکھا۔ پہلے وکیل حکیم زے صاحب کو عید کی مبارک باد دی اور پھر ڈاکٹر صاحب کی جانب بڑھا، تو انہوں نے پہل کرتے ہوئے مجھے عید کی مبارک باد دی۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات کی ایک مختصر سی کہانی، جس میں انہوں نے میری ایسی سواگت کی، جیسے ہماری برسوں سے جان پہچان ہو۔ ایسا برتاؤ اپنے سے بڑی عمر کے شخص کا پہلے بار دیکھا، جو مجھے گیٹ میں دیکھتے ہی اپنی نشست سے اُٹھ کر مجھے گلے ملے تھے۔ ملتے ہی مجھے میرے نام سے پکارا۔ مجھے اپنے کانوں پر بالکل یقین نہ آیا، لیکن جب باتیں شروع ہوئیں، تو آپ نے مجلس میں بیٹھے تمام افراد سے لاتعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ مجھی پر مرکوز رکھی۔ یہ برتاؤ دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپ میرے دیرینہ دوست ہیں۔ اسی وقت میں ان کا گرویدہ ہوا۔ ان کی عالمانہ باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں، لیکن گفتگو میں شائستگی اور روانی ایسی تھی کہ میرے فہم و فراست کے بند خانے کھلتے گئے اور مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے ساجد ابو تلتان کے سنگ ان کے ساتھ ایک لمبی نشست کر ڈالی۔ وقت گزرنے کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ واپسی پر جب گھرآیا، تو دل میں ٹھان لی کہ مذکورہ نشست کی روشنی میں ان کی ذات کے حوالہ سے کچھ کچھ سپردِ قلم کرکے ہی رہوں گا۔ آج اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے، اس لیے موصوف پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کریم ذات ہے۔ اس نے اگر ایک طرف وادئی سوات کوخوش گوار آب وہوادی ہے، تو دوسری طرف اسے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی عظیم شخصیات بھی عطا کی ہیں۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ سے تعلق رکھنے والے نامور مفکر، مؤرخ، ماہرِ لسانیات، ادیب، شاعر اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی صاحب بھی ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے کے بعد جو کچھ میرے پلے پڑا، وہ یوں ہے:
آپ کا قد متوسط، چھریرا بدن، مخروطی انگلیاں، کانوں میں رس گھولتی آواز، سرخ رنگت جسے کمال انکساری، بردباری اور عمیق مطالعہ نے کسی حد تک سیاہی مائل کردی ہے۔ جواں رہنے کا راز داڑھی چٹ کرنے میں ڈھونڈتے ہیں۔ گالوں اور جبڑوں کے درمیان سے گوشت غائب ہے، یہ جگہ اندر دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ناک خاندانی شناخت کے لیے علامت کے ساتھ چہرے پر وجاہت لانے کے لیے کافی ہے۔ کان نہ زیادہ ابھرے نہ دھنسے، نہ زیادہ چھوٹے اور نہ بڑے ہی ہیں۔ سر کے بال بائیں ہاتھ سے کنگھی کرتے ہیں۔ گویا پیشانی کی چمک رنگ آلود بالوں سے چھپانے کی کوشش میں ہوں۔ آنکھوں میں خوشی، غم، غصہ اور احسان مندی کی چمک مختلف اوقات میں آشکارا ہوتی رہتی ہیں۔ بھوئیں جو زیادہ گھنی نہیں، آنکھوں کی پُرعظمت ہونے کا ثبوت ہیں۔ مناسب کالی مونچھیں جن میں اک آدھ سفید بال اور منھ، ٹھوڑی سمیت سر کی جسامت کے ساتھ مناسب ہیں۔ لباس کے معاملے میں زیادہ سادہ ہیں اور نہ فیشن ایبل، لیکن اکثر واسکٹ کپڑوں سے میچنگ پسند کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب 21 نومبر 1964ء کو تحصیلِ مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ میں یوسف زئی قبیلے کے بوڈا خیل خاندان میں عبدالحکیم المعروف ”سور حکیم“ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول برہ درشخیلہ سے حاصل کی۔ آپ نے 1982ء اور 1984ء میں جہانزیب کالج سے بالترتیب ایف اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ماسٹر ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اسی طرح علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، جو سوات کی سطح پر پشتو میں پہلی پی ایچ ڈی تھی۔ موصوف کی زندگی اور تعلیمی سفر بارے آپ شہاب شعور کی کتاب ”ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے (جوند او قلم)“ مطالعہ کرسکتے ہیں۔
قارئین! حکیم زے صاحب کی صحت پر دشمن کو بھی ترس آئے گا، لیکن خود ان کو اپنی صحت پر نہیں آتا۔ حالاں کہ وہ عالم ہیں، اور اپنی صحت ہر کسی کو پیاری ہے۔ گھنٹوں کسی علمی مسلۂ پر بحث کرتے ہیں۔ جب بندہ مطمئن ہوجاتا ہے، تب اپنی بات کا سلسلہ منقطع کرتے ہیں۔ محدود خوراک، کم دانت اور سیگریٹ کی عادت بھی ان کی صحت خراب کرنے کی وجہ ہے۔ حالاں کہ وہ دودھ کو خاندانی غذا سمجھتے ہیں۔ گھر میں بے تکلف کھانا کھاتے ہیں۔ البتہ مہمان ہوجائیں، تو پھر کھانا شاہانہ انداز میں تناول فرماتے ہیں۔ آپ مہمانوں کا خود تواضع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دعوت پر جانے سے پہلے گھر میں کچھ نہ کچھ کھانا ان کا معمول ہے۔ ہر خوراک کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کرکھاتے ہیں۔ کھانے پینے میں احتیاط ضرور برتتے ہیں، مگر شک سے خالی۔ جبھی تو سامنے پڑی خوراک میں کسی قسم کا نقص نہیں نکالتے۔ البتہ گوبھی اور بینگن سے ازلی رقابت ہے۔ پھلوں کے رسیاہیں۔ ہر قسم کے پھل کھاتے ہیں اور بعض پھلوں کو کیلا سمجھ کر کھاتے ہیں، یعنی جب تک پھل کے جسم سے چھلکے کا لباس نہیں اتارتے، تب تک انہیں چین نہیں آتا۔  چائے پینا شراب کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔ یہ شایدیا اس بات کے ڈر سے کہ کہیں جنت میں چائے کی بھینی بھینی خوشبو سے محروم نہ ہوجائیں۔ ورنہ ایسی نفرت کوئی نہیں کرتا۔ البتہ دیگر مشروبات کو شوق سے پیتے ہیں۔ خاص کر پیپسی انہیں اتنا مرغوب ہے کہ جب مطالبہ کرتے ہیں، یا دوسروں کو پلاتے ہیں، تو کہتے ہیں ”تورے اوبہ بہ سکو۔“ ٹھنڈا شربت جب پیتے ہیں، تو ایک گھونٹ کے بعد دوسرے ہاتھ سے جبڑا دباتے ہیں، اور جب زیادہ ٹھنڈا ہو، تو پیشانی یا کھوپڑی پکڑنے تک کی نوبت آتی ہے۔
قارئین، اس ساری صورتحال کا خلاصہ بزرگ ادیب اور شاعر روح الامین نایابؔ اپنے تاثرات میں کچھ یوں لکھتے ہیں: ”حکیم زے صاحب جتنے بڑے محقق اور عالم فاضل شخصیت کے حامل ہیں، اتنے اچھے انسان بھی ہیں۔ سادگی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کا رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا سادگی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ملنے ملانے میں کمال تعلق و محبت رکھتے ہیں۔ ان سے ایک بار ملنے سے برسوں کی شناسائی کاگمان ہوتا ہے۔“
حکیم زے صاحب سنجیدہ مجالس میں علمی گفتگو توجہ سے سنتے ہیں۔ دوسروں کی رائے اور علمی براہین پر غور کرتے ہیں۔ اس وقت تک انہیں سنتے ہیں جب بولنے والا سب کچھ کہہ دیتا ہے، اور اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ تب موصوف اس کے مؤقف کی تعریف کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ان سے مخاطب ہوکر عامیانہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں: ”آپ بجا فرماتے ہیں، میں آپ کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں۔“ اور اگر اختلاف کا پہلو نکالنا مقصود ہو اور اس کے تناظر میں کسی فکر کی وضاحت کرنا ہو، تو فرماتے ہیں: ”آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس حوالے سے میرا خیال تھوڑا مختلف ہے۔“ یہ فرمانے کے بعد جب تمام جزیات کے ساتھ ترتیب وار بحث شروع کرتے ہیں، تو آخر تک سب لوگ ان کو سنتے ہیں۔ اس ضمن میں مسئلہ سیاسی ہو، یا مذہبی، ادبی ہو یا سماجی، تاریخی ہو یا جغرافیائی، فلسفہ ہو یا تصوف، ہر میدان میں علم کا ایک چشمہ ہے جو رواں ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی مثال امجد علی سحاب ؔکے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: ”ان کے تاریخی حوالہ جات کی کیا کہیے، جس سے ان کے غیر معمولی مطالعہ کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور اپنے سننے والے کو سیکھنے کی خاطر بہت کچھ دیتے ہیں۔“
عام اور بے تکلف مجالس میں گفتگو کا انداز بالکل بدل جاتا ہے۔ طنز و مِزاح کے زیادہ قائل ہیں۔ بڑے تو بڑے، چھوٹے بچے بھی ان سے مذاق کرتے رہتے ہیں۔ خود سنتے ہیں اور دوسروں کو بھی سناتے ہیں۔ دورانِ گفتگو کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ صاحب بھی بلند پایہ علمی کتابوں کے خالق ہوسکتے ہیں۔ حقیقت میں موصوف ایک درجن سے زائد کتب کے خالق ہیں، جس کی وضاحت ساجد ابو تلتان صاحب کے تاثرات میں کچھ یوں موجود ہے: ”1996ء ایک ادب خیز تاریخ کی رو سے وہ خوش بخت سال تھا جس میں علم و ادب کے چمن میں ڈاکٹر صاحب کے روپ میں مجھے ایک خوشبو دار اور سایہ دار درخت مل گیا، جس کی ادبی خوشبو اور تخلیقی رعنائیوں نے ایک درجن سے زائد کتب کی شکل میں شرفِ طباعت حاصل کی ہے۔“
طنز و مِزاح کے بعد جب مجلس سنجیدہ ہوجاتی ہے، تو فوراً متانت و سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔گویا ایک لمحہ پہلے جو مذاق ہورہا تھا، وہ کوئی اور بندہ تھا، اور یہ کوئی اور ہیں۔ بلا کا حافظہ پایا ہے۔ برسوں پرانی بات ان کو یاد رہتی ہے۔ اکثر کہتے ہیں یہ بات پہلے میں ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں۔ یقینا بات جتنی بار کہی ہو، اتنی ہی تمام جزیات کے ساتھ ان کو یاد بھی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مقام اور محلِ وقوع بھی بتاتے ہیں۔ موضوع، موقع محل، حاضرینِ مجلس کی علمی سطح اور ان کے مذاق کو دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ ہر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بہتر نتائج نکالتے ہیں۔
قارئین! یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران میں آپ کا سیاسی جذبہ بیدار ہوا تھا، اور یوں آپ نے ”پختون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن“ کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ اس وقت آپ کے بڑے بھائی وکیل حکیم زے صاحب مزدور کسان پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب پر فائز تھے۔ 1999ء میں آپ کے بڑے بھائی وکیل حکیم زے نے ایک قوم پرست ہونے کے ناتے”افغان نیشنل پارٹی“ تشکیل دے دی۔ اسی لیے موصوف مذکورہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے عملی سیاست میں کود پڑے۔ آپ نے 2002ء کے جنرل الیکشن میں صوبائی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا، لیکن ایم ایم اے کی ہوا چلنے کی وجہ سے آپ کو کامیابی نہ مل سکی۔ اسی طرح آپ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل درشخیلہ سے ناظم کی حیثیت سے میدان میں اترے، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ آپ سیاسی و ادبی اجتماعات اور انتخابی مہم میں ایسی پُرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کرتے کہ لوگ حیران ہوجاتے۔ اس قابلِ رشک کیفیت کو ساجد ابو تلتان صاحب اپنے مضمون میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ”آپ کی برجستہ تحریر اور شستہ تقریر کو ہر جگہ پذیرائی حاصل ہے۔“
اس کے علاوہ حکیم زے صاحب ایک بہترین محقق اور لکھاری ہیں جنہوں نے اب تک 13کتب لکھی ہیں، اور ان کے لیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ان کی تین تصانیف باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پشتو نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی تحقیقی کتب میں ”اخون میاں داد دیوان، زیرے، دہ دوست محمد خان دوستی گنجتہ الگویری، میاں قاسم بابا، سرتورفقیر، دہ میاں حمداللہ فقیر خیل کلام اور سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات (اردو) شامل ہیں۔ جب کہ تخلیقی کتب میں دہ حق چغہ، پشتون ولی اور دہ پختونخوا لنڈہ مطالعہ شامل ہیں۔ اسی طرح موصوف نے افسانوں کی بھی دو کتابیں لکھی ہیں، جن میں د ملالئی ٹپہ اور دا مزے غوسول غواڑی شامل ہیں۔
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے شعبہئ پشتو کے طالب علم آپ کے لیکچر ز سے مستفید ہو رہے ہیں۔ موجودہ رہائش حیات آباد پشاور میں رکھتے ہیں۔ جہاں فارغ اوقات میں ادبی مجالس، ٹیلی وِژن انٹرویوزاور دوستوں سے ملنے جاتے ہیں۔ تخلیق و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، لیکن جب مناسب موضوع نہیں ملتا، تو قلم اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ البتہ ادیبوں اور شعرا کی سرپرستی خوب کرتے ہیں۔ ان کی کتب پر دیباچے اور تاثرات قلمبند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیمیں آپ کو ادبی مجالس میں صدر اور مہمانِ خصوصی کے طور پر بلاتی ہیں۔ خاص کر مشال ادبی و ثقافتی تنظیم اور سوات ادبی تڑون کو آپ کی سرپرستی کا شرف حاصل ہے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی عمر دے، تاکہ آپ علم و ادب کے گلستان کی آبیاری اسی طرح جاری رکھ سکیں، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں