اختر حسین ابدالیکالم

تعلیمی نظام کی زبوں حالی، ذمہ دار کون؟

انسانی تاریخ میں ابتدا ہی سے علم کو امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی اشاعت میں اختلاف رہا۔
انسانی تاریخ پر اگر سنجیدگی سے نظر ڈالی جائے، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسی علم نے کتنی بڑی ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ یونان کی گلیوں میں گھومنے والے سقراط نے جب اس کا بیڑا اٹھایا، تو افلاطون، ارسطو اور دیگر اہم شخصیات پیدا ہوئیں، جنہوں نے سیاست سے لے کر فلکیات کی دنیا تک انقلاب برپا کر دیا۔
اسی علم نے جب مذہبی رُخ اختیار کیا، تو عرب کی سرزمیں پر ایسی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں، جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی، جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا حیران ہوکر رہ گئی، لیکن آج کے دورمیں اگر علم پر گفتگو کرنے کے لیے کوئی دانشور میدان میں آتا ہے، تو اس کو ماضی کی علمی صورتحال کی تاریخ اور موجودہ تعلیمی نظام کی کمیوں پر نوحہ کناں ہونا پڑتا ہے۔
قارئین، وہ علم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں، بالکل کافی نہیں۔ کیوں کہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہا ہے اور نہ یہ ہمارے ذہن کو وسعت ہی دے پا رہا ہے۔ ہم تعلیم حاصل کرکے بھی اسی پرانی بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہیے تھا۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اُسی ساس بہو کے فرسودہ نظریے کے ساتھ چلتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو آپ دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دیں، وہ وہی گالی بھری زبان لیے پھرتے ہوں گے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہوں گے۔ کیوں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہم جس طرح تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں، اسی طرح واپس نکل آتے ہیں۔
قارئین، موجودہ تعلیمی نظام اپنے وجود میں ہولناک قسم کی خامیاں رکھتا ہے، جس کے پیشِ نظر تحریر میں چند ایک کا ذکر موجود ہے۔
یہ تعلیمی نظام اہلیت و قابلیت کی بجائے مارکس، جی پی اے، اسائنمنٹ اور امتحانی ہال کے ارد گرد گھومتا ہے، اس نظام میں تمام شاگردوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا جاتا ہے، یعنی ان کی مختلف صلاحیتوں کو دیکھنے کا کوئی دستور ہی نہیں۔ اس نظام نے اخلاقی تربیت کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ اس نظام میں پیشہ ورانہ تعلیم کو انتہائی کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ پورا سسٹم ”کمرشلزم“ کے اصول پر استوار ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس تعلیمی نظام میں ڈھیر ساری کمزوریاں ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ تعلیمی نظام مجموعی طور پر انسانی ترقی کا باعث نہیں بن رہا، خواہ وہ ترقی دنیاوی ہو یا دینی۔
بالخصوص وطنِ عزیز کی تعلیمی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ وطنِ عزیز میں موجود تعلیمی نظام ”ڈبل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن“ کے اصول پر نہیں بلکہ ”سیورل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن“ پر استوار ہے۔ ایک اسکول کا تعلیمی نظام دوسرے اسکول سے ہر لحاظ سے مختلف نہیں بلکہ متضاد ہے۔ فیس اسٹرکچر سے لے کر اساتذہ کی تنخواہ تک، انتظامی صورتحال سے لے کر اکیڈمک معاملات تک ہر چیز اپنے وجود میں اختلاف رکھتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں تعلیم جو کہ ہماری بنیادی ضرورت اور ملک میں موجود تمام مسائل کا حتمی حل ہے، انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔
اگر ہمیں اپنی قوم کو دنیا کی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرنا ہے، تو ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے نصابِ تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اپنے سلیبس کو جدید دور کے مطابق معیاری بنانا ہوگا۔ کیوں کہ ہماری ضرورت ”ڈگری ہولڈر“ قوم نہیں بلکہ ایک مہذب قوم ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں