اختر حسین ابدالیکالم

پروفیسر سبحانی جوہر کی یاد میں

گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے طلبہ اور پروفیسر صاحبان نے شعبہئ انگریزی کے پروفیسر سبحانی جوہر (مرحوم) کی یاد میں 13 مارچ 2021ء بروزِ ہفتہ مذکورہ کالج کے امتحانی ہال میں ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا، جس میں پروفیسر سبحانی جوہر کے اہلِ خانہ، قریبی دوستوں محمد حنیف قیسؔ، روح الامین نایابؔ، ہمایون مسعود، پروفیسر محمد امین، پروفیسر شہاب الدین، سوات تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر سید نبی شاہ، پروفیسر امجد، پروفیسر سبحانی گل، لیکچرار عزیز الحق، لیکچرار احسان یوسف زئی اور نصیب تنہا سمیت پورے کالج کے تدریسی و غیر تدریسی عملہ اور کالج کے تمام طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ جب کہ امجد علی سحابؔ اور پروفیسر عطاء الرحمن عطاؔ ذاتی مصروفیات کی بنا پر تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔
اسلامی روایات کی رو سے تقریب کا باقاعدہ آغاز حافظ قاری عبدالعزیز نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا، جس کے بعد انگلش ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر شوکت صاحب کو سٹیج پر کمپیئر سید داؤد شاہ کی جانب سے دعوت دی گئی، جنہوں نے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پروفیسر سبحانی جوہر (مرحوم) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لب کشائی کی۔ بعد ازاں طالب علم ولی اللہ کی جانب سے پروفیسر سبحانی جوہر پر بنائی گئی ڈاکومنٹری پردہ کے ذریعے پیش کی گئی۔ ڈاکومنٹری کو دیکھتے ہوئے حاضرینِ مجلس غم زدہ ہوکر آب دیدہ ہوئے۔ اس کے بعد شعبہئ پشتو کے لیکچرار احسان یوسف زئی نے اپنا مرثیہ بعنوان ”د سبحانی جوہر پہ یاد کی“ پڑھ کر سنایا۔ جس کا ایک بند کچھ یوں ہے:
یو سڑے وو، معلم وو، لکچرار وو
یو سڑے وو شخصیت ئی پر اسرار وو
یو سڑے وو نہایت شیرین گفتار وو
یو سڑے وو، د الفت علمبردار وو
یو سڑے وو، زمونگ دوست وو، زمونگ یار وو
یہ سلسلہ ختم ہوتے ہی پروفیسر سید نبی شاہ، پروفیسر امجد، لیکچرار عزیز الحق اور نصیب تنہا نے یکے بعد دیگرے تاثرات پیش کرنے سٹیج کا رخ کیا۔ تاثرات کا یہ سلسلہ ختم ہوتے ہی محمد حنیف قیس، ہمایون مسعود، پروفیسر محمد امین اور پروفیسر شہاب الدین نے سبحانی جوہر مرحوم کی زندگی، ان کی ادبی صلاحیتوں اور اکیڈمک قابلیت پر سیر حاصل بحث کی، لیکن کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے اسے ضبط تحریر میں نہیں لاسکتا۔
اس درمیان مرحوم کے چھوٹے بھائی عرفان جوہر کو بھی اظہارِ خیال کے لیے سٹیج آنے کی دعوت دی گئی، لیکن اضطرابی کیفیت کی وجہ سے وہ معذرت کرکے ڈائس پر نہ آسکے۔ پھر سبحانی جوہر کے جگری دوست اور وہ ہولناک سانحہ جو مرحوم کی موت کا سبب بنا، کے عینی شاہد روح الامین نایاب صاحب آہ اور سسکیوں کے ساتھ سٹیج پر آئے۔ نایاب صاحب نے اپنا مختصر تعارف کچھ یوں کیا: ”مَیں وہ بد قسمت انسان ہوں جو اپنے دو یاروں (تصدیق اقبال بابو اور پروفیسر سبحانی جوہر) کو موت کی آغوش میں دیکھ کر بھی کچھ نہ کرسکا۔“ اس دوران میں نایاب صاحب خود بھی خوب روئے اور پورے ہال کو بھی زار و قطار رُلا دیا۔ موصوف نے سبحانی جوہر مرحوم کے ادبی فن پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ”سبحانی جوہر انگریزی اور اُردو ادب پر خوب دسترس حاصل کرچکے تھے۔ آپ ایک بہترین فلسفی، مدلل تنقید نگار اور ماہر استاد تھے۔“ لیکن جذبات و احساسات نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ خطاب مختصر کرکے سٹیج سے اتر کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
نایاب صاحب کے بعد ادارہ کے پرنسپل پروفیسر محمد الیاس صاحب نے سٹیج پر آکر سبحانی جوہر مرحوم کے کالج میں گزرے ہوئے وقت اور ان کی رحلت سے پیدا ہونے والی صورت حال کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو یقین دلایا کہ کالج انتظامیہ آپ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔
پروگرام کے آخر میں پروفیسر سبحانی جوہر کے بہنوئی اور معروف اسلامی سکالر مفتی عنایت الرحمان شاکر نے ڈائس پر آکر سبحانی جوہر کے بچپن، لڑکپن اور جوانی پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ”سبحانی جوہر بہت ذہین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 15 مہینوں میں قرآن مجید حفظ کیا۔ تین دن میں قرآن کی ختم کیا کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں مختلف مساجد میں تراویح پڑھا کرتے تھے۔“ اس کے بعد مفتی صاحب نے عبدالرحیم روغانیؔ، تصدیق اقبال بابو اور پروفیسر سبحانی جوہر کی مغفرت کے لیے جامع دعا مانگی اور یوں یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
قارئین! یہ جملہ کئی بار سنا تھا کہ استاد کی حیثیت روحانی باپ کی ہوتی ہے، لیکن عملی طور پر اس وقت دیکھا جب تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کیوں کہ یہ لوگ (طلبہ و طالبات) اپنے روحانی والد سبحانی جوہر مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی یادیں تازہ کرنے آئے تھے۔ ہال میں موجود کرسیاں کم پڑگئیں۔ ہال کے چاروں طرف سروں کا ایک سیلاب دکھائی دے رہا تھا۔ سسکیاں لی جا رہی تھیں۔ کیوں کہ چند ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے وقت ایک دل لاتے ہیں اور جاتے وقت ہزاروں دل اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سبحانی جوہر صاحب تھے جو اپنے دوستوں، عزیز و اقارب اور شاگردوں کے دل اپنے ساتھ لے کر گئے۔
قارئین، جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں