اختر حسین ابدالیکالم

پارلیمنٹ کی بے توقیری

پارلیمنٹ ریاست کا قانون ساز، سب سے مقدس اور بالا ادارہ ہوتی ہے۔ عام طور پر پارلیمان کا کام عوام کی نمائندگی اور ان کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے قانون سازی کرنا ہے۔ مذکورہ ادارے کے وقتاً فوقتاً اجلاس ہوتے رہتے ہیں جن میں بجٹ اجلاس پوری پارلیمانی کارروائیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیوں کہ حکومت آئندہ سال کے آمدن و اخراجات کا تخمینہ پارلیمان کے ذریعے قوم کے سامنے رکھ کر اس کو آمدن کے مختلف ذرائع اور اخراجات کی مختلف مدات پورے اعداد و شمار کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ فلاح و بہبود، ترقی کے منصوبے اور اہم حکومتی اہداف بھی بجٹ تقریر کا حصہ ہوتا ہے۔ تمام ارکانِ پارلیمنٹ کو بجٹ تجاویز پر بولنے اور زبانی و تحریری اعتراضات کا حق ہوتا ہے۔
اسی سلسلے میں 11 جون 2021ء کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی، حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر بجٹ کاپیوں سے حملوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک تماشا بن گیا۔ جمہوریت کی تاریخ میں مذکورہ دن سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ پارلیمنٹیرین کے اخلاق سے گری ہوئی ان حرکات پر پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔
قارئین! پارلیمنٹ کے ایک ایک اجلاس پر اس ہجوم نما قوم کے خون پسینے اور ٹیکس کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب یہ کروڑوں روپے خرچ ہوکر پارلیمنٹ کا ایک سیشن منعقد ہوتا ہے، تو گالم گلوچ، اخلاقیات سے گری ہوئی حرکات، الزام تراشیاں، اللہ کے مقدس ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر غلیظ الفاظ کا استعمال اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، جس سے پارلیمنٹ کی بے توقیری ہوتی ہے۔
آپ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھیں جب 11 جون کو ایوان میں بجٹ پیش ہو رہا تھا، تو ایوان، ایوان نہیں بلکہ مچھلی منڈی لگ رہا تھا۔ اخلاقیات سے عاری ان نام نہاد عوامی نمائندوں کو لڑتے بھڑتے دیکھ کر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ یہ کیسے عوامی نمائندے ہیں جن کو غربت میں ڈوبے عوام بڑے مان کے ساتھ ایوان میں بھیجتے ہیں، تاکہ ان کے مسائل حل ہو سکیں۔ اور جب یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں، تو عوامی مفادات کی بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے پر آوازے کستے ہیں۔
قارئین، اندازہ لگائیں، 11 جون کے بجٹ سیشن میں وزیراعظم بیٹھا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ ان پر فقرے چست کرتے ہیں۔ بجٹ سیشن میں قائدِ حزبِ اختلاف کی بھی ایک عزت ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کی شرکت اور بجٹ پر تجاویز انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ لیڈر آف دی اپوزیشن کو کسی وقت کی پابندی سے ماورا تقریر کرنے اور حق اور مخالفت میں بولنے کا حق ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مملکتِ خداداد میں اپوزیشن لیڈر محض ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ جس کی واضح مثال شہباز شریف کی بجٹ تقریر میں حکومتی وزرا اور ارکان کی ہنگامہ آرائی ہے۔ موصوف جب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، تو اسمبلی ہال میدانِ جنگ بن گیا۔ شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، شیریں مزاری اور پرویز خٹک سمیت دیگر سینئر رہنماؤں نے طوفانِ بدتمیزی بپا کیا۔ حتیٰ کہ ”وزیرِ ڈاکخانہ جات“ ڈیسک پر چڑھ کر ایسا فن کاری کرتا دیکھا گیا جیسے وہ ریسلنگ مقابلہ میں شریک ہو۔ اپوزیشن ارکان پر بجٹ کی وہ کاپیاں پھینکیں جن کے پہلے صفحے پر ”بسم اللہ“ لکھا گیا تھا۔
تحریکِ انصاف کے علی نواز اعوان نے نون لیگ کے ایم این اے کو ماں بہن کی گالیاں دیں۔ یہاں تک کہ خواتین اراکین بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اراکینِ اسمبلی نہیں بلکہ کسی پرائمری سکول کے بچے آپس میں لڑ رہے ہوں۔ اس نام نہاد حکومت نے اسمبلی ہاؤس کا جو حشر کیا ہے، وہ ایم این اے ارباب شیرعلی خان کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ”مجھے میرے چھوٹے بچے نے واٹس ایپ پر مسیج کرکے کہا کہ ”بابا! آج مچھلی منڈی میں ہونے والے بکس تھرو ونگ مقابلہ میں آپ نے حصہ لیا کہ نہیں؟“
قارئین! زیرک سیاست دان اسفندیار ولی خان کے بقول، ”جب سے کپتان سیاست میں آیا ہے، سیاست سے برداشت، شائستگی اور شرافت ختم ہوچکی ہے۔“ یہ بات وفاقی وزرا کی ہلڑ بازی، اخلاق سے گری ہوئی حرکات اور رویوں سے ثابت ہوچکی۔ حکومت ہمیشہ برداشت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی ہے، تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو، لیکن پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ حکومتی اراکین، اپوزیشن کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ سپیکر کا پورے پارلیمنٹ میں سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے، جس کو وزیراعظم سمیت تمام ارکان اسمبلی ”سپیکر صاحب!“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ جانب دار ہونے کے ساتھ حق و باطل میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ سپیکر ایوان کے ہر رکن کا محافظ اور نگہبان ہوتا ہے، لیکن وہ بھی اپنے آئینی، قانونی، جمہوری اور پارلیمانی ذمہ داریاں انجام دینے میں مکمل ناکام ہے۔ جب بات ان کے کردار کی آئی، تو صاحب نے کہا کہ ”کسی وزیر یا حکومتی رکن کو ایوان میں ہلڑ بازی کرتے نہیں دیکھا۔“ اب سپیکر صاحب کو بندہئ ناچیز کی رسائی نہیں، ورنہ ان کے لیے ایک عدد نظر کا چشمہ تحفتاً ضرور عنایت کرتا۔ بقولِ شاعر:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہئ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
قارئین! پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور بڑا ادارہ ہے جس کی تضحیک ہمارے یہی نمائندوں کرتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ آخر پاکستانی سیاست کس طرف جا رہی ہے اور سیاست میں تلخی کیوں پیدا کی جا رہی ہے؟ ہمارے سیاست دان ذاتی نفرتوں کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟ ایک وقت وہ بھی تھا جب لوگ سیاست کو عوامی خدمت کا نام دیتے تھے، اب یہ گالی، انتقام اور ذاتیات پر اُترنے کا استعارہ ہے۔
قارئین، حکومتی اراکین کی زبان درازی اور ہنگامہ آرائی سے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرنا کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت جمہوریت اور پارلیمان کی بے توقیری سرکاری سطح پر کارروائیوں کا حصہ ہے۔ اس شرم ناک عمل سے غیر جمہوری طاقتوں کو فائدہ ملے گا، جس سے ملک کا نقصان ہوگا۔ کیوں کہ پارلیمان کے تقدس کو مجروح کرنے والے اپنے مذموم عزائم میں کامیاب رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمان کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کریں۔ اس صورتِ حال میں اپوزیشن کو انتہائی صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ مسلط ٹولے کو لانے والے اپنے لاڈلوں کے ذریعے پارلیمان کی بے حرمتی پر اتر آئے ہیں۔ یہ جمہوریت پسندوں کو ہی معلوم ہے کہ وطنِ عزیز میں سرکاری سطح پر سیاست اور پارلیمان کو کمزور کرنے کی کتنی کوششیں ہوتی ہیں۔
قارئین، اس مسئلے پر ہر شہری کو جمہوریت کی خاطر آواز اٹھانا پڑے گا۔ جب کہ اپوزیشن کو اپنی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو۔ کیوں کہ تبدیلی سرکار نے پارلیمنٹ کا جو حشر کردیا ہے اور پارلیمانی اقدار کو پاؤں تلے روند دیا ہے، اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اس سلیکشن کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے سیلیکٹر کی اہلیت کا بھی پتا چلا ہے اور عوام سے انتخاب کا حق چھیننے کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔
ان نام نہاد پارلیمنٹرین کا ایسا رویہ دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ پارلیمان، پارلیمان کی تعریف پر پورا اُترتا بھی ہے؟ اگر ان پارلیمنٹرین کی تربیت کسی پارلیمانی تربیتی ادارے سے نہیں ہوئی ہے، تو کیا اپنے گھر اور معاشرتی ماحول میں بھی ان کی تربیت نہیں ہوئی ہے؟ یہ کون سے معاشرے سے پارلیمان میں آئے ہیں، جہاں بحیثیتِ انسان یا مسلمان بھی ان کی تربیت نہیں ہوئی؟
قارئین! پارلیمان میں جو بھی غیر پارلیمانی روش اختیار کی جاتی ہے، چاہے وہ حکومت کی طرف سے ہو یا اپوزیشن کی طرف سے، یا پھر یہ کسی پالیمنٹرین کا انفرادی عمل ہو یا اجتماعی، کسی بھی صورت قابل قبول ہوتا ہے اور نہ ہی قابل معافی۔ کیوں کہ پارلیمنٹ سارے عوام کا نمائندہ فورم ہوتی ہے جس میں کسی بھی ایسے قول و فعل کا مرتکب ہونا عوامی نمائندگی کو مجروح کرتا ہے۔ اسی ہاؤس میں ایسے لوگ بھی منتخب ہوکر آئے ہیں جنہوں نے پاکستان کو آئین دیا۔ مختلف اُمور نبھانے کے لیے بہترین قوانین اور پالیسیاں دیں۔ مختلف حکومتی اُمور کی نگرانی کے لیے سفارشات مرتب کیں۔ جب آمروں نے اپنی مرضی کی قانون سازی کی، تو ان عوامی منتخب نمائندوں نے اُن تمام ترامیم اور قوانین کو یکسر ہٹا کر جمہوری کردار بھی ادا کیا ہے۔
ہمارے پارلیمنٹرین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ہاؤس ہماری قومی، اجتماعی و انفرادی بھلائی، فلاح و ترقی اور خوشحالی کا راستہ بنانے کا وہ منتخب ادارہ ہے جو عوام ہی کے تفویض کردہ آئینی اختیارات کو استعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور آئین اور قوانین کا نگران ادارہ بھی ہے۔ جب کہ ملک کے تمام مناصب اور ادارے آئین اور قوانین سے اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں لیتے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر عوامی منتخب پارلیمنٹ آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہو اور ملک میں قانون کی بالادستی ہو، تو ادارے کبھی انحراف نہیں کر سکتے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں