اسحاق میاںکالم

حق کی تلاش

مسلک کے بت کو پاش پاش کیجیے، اور دینِ محمدیؐ کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ کسی پر کفر کے فتوی نہ لگائیں، اور نہ مسلمان بھائیوں سے نفرت ہی کیجیے۔ حق اور سچ بات جہاں سے بھی ملے اسے پلوں سے باندھ لیجیے اور تنگ نظری کا مظاہرہ مت کیجیے۔ وسیع القلبی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کیجیے۔ سب کو سنیں۔ پھر ان میں اپنی عقل، فہم و فراست اور علم کی بنیاد پر فیصلہ کیجیے، کیوں کہ حق بات پہچاننا بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا۔ ہاں، البتہ ہم پر جس جس مسلک کا لیبل بچپن سے چسپاں کیا جاچکا ہوتا ہے اور جس جس مسلک کے نمبرپلیٹ کو ہم استعمال کرتے ہیں، ہم اتنی آسانی سے اُسے اتارنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
قارئین، بچپن میں سکھائی ہوئی باتیں دماغ سے نکالنا سب سے مشکل ترین اور کٹھن کام ہوتا ہے۔ ورنہ آج روئے زمین پر کوئی بندہ اللہ کی وحدانیت کا منکر نہ ہوتا۔ کیوں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین و فطین انسان اپنے ماں باپ کے دین اور ماحول کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ اللہ نے اگر ہمیں ایک مسلمان کے ہاں پیدا نہ کیا ہوتا، تو کیا ہم اس کے بعد اسلام قبول کرچکے ہوتے؟ بات تلخ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نہ کرے اگر ہم میں سے کوئی بھی کسی مجوسی، یہودی، عیسائی، ہندوں یا کسی ملحد کے ہاں پیدا ہوا ہوتا، تو شاید موت تک اسی مذہب کا اندھا پیروکار ہوتا، اور کبھی حق کی تلاش نہ کرتا۔ کیوں کہ انسان جس معاشرے کے مذہب یا مسلک میں آنکھ کھولتا ہے، اُسی دین و مذہب اور مسلک میں ہی داعئی اجل کو لبیک بھی کہتا ہے۔
قارئین، اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو دینِ فطرت یعنی اسلام پر پیدا کیا ہے، لیکن والدین کا مذہب دیکھ کر بچے بھی وہی مسلک، وہی مذہب اور وہی طور طریقے اپنا لیتے ہیں، جس معاشرے اور تہذیب میں ان کا بچپن گزرا ہو، وہ اسی کا دم بھرتے ہیں۔ صرف وہ لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور دینِ اسلام کو بطورِ مذہب قبول کر دیتے ہیں، جو حق کی تلاش میں سرگرداں ہوں اور یا مخالفت کی انتہا پر ہوں۔ کیوں کہ دونوں صورتوں میں وہ مذہب کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور مذاہب کا مطالعہ اور تحقیق و جستجو ہی کی مدد سے ان پر حقیقت آشکارہ ہوجاتی ہے۔ پھر ان میں سے کوئی حق بات جاننے کے باوجود ضد کی راہ پر چل پڑتا ہے اور کوئی سرِ تسلیم خم کرکے دینِ اسلام کو سینہ سے لگا لیتا ہے۔
قارئین، دوسرا مذہب اختیار کرنا تو بڑے دل گردے کی بات ہے۔ ہمیں تو اپنے ہی دین و مسلک میں جو غلط طریقے بچپن میں سکھائے گئے ہوتے ہیں، وہ درست کرنا موت کی مانند لگتا ہے۔
لاریب، اللہ نے انسانوں کے لیے دینِ اسلام کو پسند فرمایا اور دینِ اسلام کو مکمل ضابطہئ حیات بناکر ہی زمین پر اُتارا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں نے دینِ محمدیؐ میں اپنے اپنے طور طریقے ایجاد کرنا شروع کر دیے۔ آہستہ آہستہ یہ نت نئے طریقے امت میں سرایت کرگئے، اور امت کئی مسالک میں بٹنے لگی۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرقوں سے باز رہنے کا واضح حکم صادر فرمایا: ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور فرقہ بازی نہ کرو۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے، یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہوگا۔“ (سورہئ الِ عمران)
مگر مسلمانوں نے اللہ کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی کی۔ آج ایک مسلک کے پیروکار دوسرے مسلک والوں کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مساجد میں یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ البتہ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں جانتے۔
قارئین، ہم مسلمانوں کو سوچنا چاہیے اور حق بات کو تلاش کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جس کام سے اللہ نے منع فرمایا، ہم اسی راہ پر چل نکلیں اور مسلکی ہجوم کو دیکھ کر ہم سب جھوم جھوم کر کہیں کہ بس ہم ٹھیک ہیں اور دوسرے غلط۔ کیا کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ جنہیں ہم غلط سمجھتے ہیں اور خود کو صحیح کہہ رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سیدھی راہ پر ہوں؟
بہرحال یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں بلاتحقیق اور غور و خوص کے کسی کو اسلام سے خارج نہیں کرنا چاہیے۔ اگر نماز پڑھتے وقت آپ کے ایک جانب اللہ کا کوئی بندہ رفع الیدین اور آمین بالجہر کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو، اور دوسری طرف اللہ کا کوئی بندہ ہاتھ نیچے کرکے نماز ادا کر رہا ہو، تو کسی کو اس سے کوئی مسلہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہم سب مسلمان ہیں، اور نماز ایک ایسا عمل ہے جس میں سب یہی کہتے ہیں: ”ایاک نعبدو و ایاک نستعین!“
قارئین، آئیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ کسی پر لعن طعن نہ کریں، خود سدھریں اوردوسروں کو سدھارنے کی کوشش کریں، وہ بھی علمی طریقہ سے۔ جہالت، ضد اور ہٹ دھرمی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا لوگوں کو تو اللہ بھی ہدایت نصیب نہیں کرتا۔
قارئین، ہمیں امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانا ہوگا۔ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کافر مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا، نہ ان کی جنگ کسی خاص گروہ یا فرقہ کے خلاف ہے۔ وہ ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتے ہیں، لیکن بس ہم مسلمان ہی ایک دوسرے کو کافر اور گمراہ سمجھتے ہیں۔
قارئین، جب آپ خود کسی بات کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ہوجائیں اور کسی کشمش یا گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوجائیں، تو ایسی صورت میں اللہ تعالی سے براہِ راست مدد و رہنمائی طلب فرمائیں۔ خلوصِ نیت کے ساتھ دو رکعت صلاۃِ حاجت اس نیت سے پڑھ لیں کہ اللہ مجھے اس طریقہ پر چلا جس طریقہ کو تو چاہتا ہے، اور جو طریقہ تجھے سب سے زیادہ پسند اورعزیز ہو۔ میرے دل و دماغ کو حق بات سمجھنے کے لیے کھول دے۔ میرے لیے حق بات تسلیم کرنا اور قبول کرنا آسان فرما دے۔مجھے ہر گمراہ سے دور اور سچوں کا ساتھ نصیب فرما۔
قارئین، یقین جانیے بار بار ایسا کرنے سے آپ کو شرح الصدر حاصل ہوجائے گی۔ آپ مسلکی تعصب سے آزاد ہوجائیں گے، اور پھر کوئی بھی حق بات قبول کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ یہ زمانہ آخرت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امامِ مہدی ؒ اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت صرف دو گروہ باقی رہ جائیں گے، مسلمان اور کافر۔ کوئی بھی دوسرا مسلک اور فرقہ نہیں ہوگا۔ تمام مسلمان ایک ہی دین پر قایم رہیں گے۔ تمام باطل طریقے، مسلک اور فرقے تحلیل اور ختم ہوجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے پہلے پہلے ذہنی طور پر اس وقت کے لیے خود کو تیار کیجیے۔ کیوں کہ اس وقت فرقوں سے پاک اسلام ہوگا اور سب ”مسلم“ کہلایں گے۔ علمائے کرام اپنے اپنے مسلکوں کی دفاع کی بجائے اللہ کے خالص دین کی دفاع پر زور دیں۔ اللہ اور رسولؐ کی حق بات کوئی بھی اللہ کا بندہ کرے، تو آگر تائید کرنے کی جسارت نہ ہو، تو خاموشی ہی اختیار کیجیے۔ حق کی تلاش کیجیے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں