اسحاق میاںکالم

خواتین کا یا بے حیائی کا عالمی دن؟

’’ہم لے کر رہیں گے آزادی‘‘، ’’ہم چھین کے رہیں گے آزادی‘‘، ’’ہے حق ہمارا آزادی‘‘، ’’ہم سب سے لیں گے آزادی۔‘‘
آزادی کے ان فلک شگاف نعروں کی گونج مسلسل میری سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔ میں سمجھا شاید یہ دخترانِ کشمیر اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے ہندوستان کی غاصبیت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، لیکن میری یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوئی جب مغربی تہذیب سے متاثرہ چند لبرل خواتین کی عزت کا جنازہ خود ان کے ہاتھوں اٹھتے دیکھا۔ جنازہ کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے کچھ پلے کارڈز اور ان پر لکھے گئے بیہودہ، فحش اور نازیبا الفاظ جنہیں دیکھ کر یقیناًہر باعزت، خوددار اور باحیا مشرق پسند مرد اور باعزت گھرانوں کی پردہ پوش پاکستانی خواتین کے سر شرم سے جھک گئے ہوں گے۔ ان کے خاوند، بھائی اور باپ صبح نکل کر رزق کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، تاکہ ان کی معزز خواتین معاش کی فکر سے آزاد ہوکر اپنے گھربار اور بچوں کی دیکھ بال احسن طریقے سے سرانجام دیں۔ خواتین کے حقوق کے نام پر آزادی کے نعرے لگانے والوں نے خواتین کے جائز حقوق کے لیے نہ تو کوئی پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، اور نہ کوئی آواز ہی لگائی تھی۔
وہ نازیبا، متنازع اور بے حیائی پر مبنی چند جملے جسے قلم لکھنے سے قاصر ہے، مگر مجبوراً تحریر کر رہا ہوں تاکہ قارئین کو یاد رہے اور ان این جی اوز کے شر سے خود کو، اپنی خواتین کو اور گھر کو محفوظ رکھنے کا انتظام کرسکیں۔ نعرے ملاحظہ ہوں: ’’میں آوارہ، میں بدچلن‘‘، ’’نو بچہ دانی، نو اوپینئن‘‘، ’’اکیلی آوارہ آزاد‘‘، ’’طلاق یافتہ اور خوش‘‘، ’’گھٹیا مرد سے آزادی، سر درد سے آزادی‘‘، ’’ماروگے تو ماروں گی‘‘، ’’آزادی چاہیے، شادی نہیں‘‘، ’’کھانا گرم کروں گی، اپنا بستر خود گرم کرنا‘‘، ’’عورت بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘، ’’گھر میں بے بنیاد اصولوں کو نہیں مانتے‘‘،’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘، ’’دوپٹہ اتنا پسند ہے، تو خود لے لو‘‘، ’’دوپٹہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو‘‘، ’’میرے کپڑے میری مرضی‘‘، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں، یہ نعرے کسی مادر پدر آزاد یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر نہیں بلکہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے مرکز اور صوبائی دارالخلافوں میں گونج رہے تھے۔ ان میں کون سا نعرہ ہے جو خواتین کے حقوق کی ترجمانی کرتا ہے؟ نہ تو ان نعروں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے، وراثت میں اپنا حق مانگنے، جنسی ہراسانی کے خاتمہ، باعزت روزگار اور برابری کی بنیاد پر تنخواہ کا مطالبہ تھا، اورنہ کاروکاری، ونی اور دیگر فرسودہ رسومات کے خاتمہ اور نہ قرآن سے شادی کرنے پر کسی قسم کی لب کشائی کی گئی تھی، تو پھر آخر یہ سب کچھ کیوں اور کس کے ایما پر ہورہا ہے؟
8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مغربی تہذیب و تمدن کی دلدادہ چند نامرد و ’’نا زن‘‘ کے فحاشی پر مبنی یہ نازیبا جملے کسی بھی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔مغربی کلچر جس سے تو مغرب خود پریشان ہے۔ جہاں 13 سال عمر سے لے کر 19 سال تک کی لاکھوں لڑکیاں ہرسال ناجائز بچوں کی ماں بن جاتی ہیں۔ یہاں پاکستان میں کچھ ہم جنس پرست مرد و زن بھی شامل ہیں، جو مغربی فحش این جی اوز کے آلۂ کار بن کر 99 فیصد پاکستانیوں کو یرغمال بنانے پر اپنا سارا زور لگا رہے ہیں۔ پاکستانی خواتین عزت و آبرو، وقار، احترام، حیا اور تقدس کے پیکر ہیں اور وہ اپنے مشرقی اقدار میں جینا چاہتی ہیں جب کہ یہ مادر پدر آزاد اور لبرل آزادی کے نام پر ان کی عزت کے سوداگر بنے ہوئے ہیں، جن سے ہر حال میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
عورت مظلوم ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، لیکن ہر مرد، عورت پر ظلم کرتا ہے، تو یہ بھی درست نہیں۔ اپنے جائز حقوق کے لیے ضرور احتجاج کیا جائے، لیکن حقوقِ نسواں کے نام پر بے حیائی کو پروموٹ کرنا اور بے راہ روی کا شکار ہونا کوئی عقلمندی نہیں، بلکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے مقتول کی ماں بھرے کچہری میں سب کے سامنے ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر جج سے انصاف مانگنے کا تقاضا کرے۔ ایک مقتول کے لیے انصاف مانگنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔
برسبیل تذکرہ، ایک مصری ڈاکٹر دوست سے پوچھا کہ کیا آپ کی سڑکوں پر بھی ’’وومن ڈے‘‘ کو پاکستان کی طرح بے حیائی کے دن کے طور پر منایا گیا؟ تو اس نے کہا کہ مصر میں اس دن کو ماں کے دن کی طرح منایا گیا۔ تمام سپر مارکیٹوں میں خواتین کے لیے خصوصی ڈسکاونٹ تھا۔ مردوں نے اپنے گھر کی خواتین کے لیے گفٹ خرید کر دیے۔ کوئی بے شرمی اور متنازع جملوں پر مبنی بینرز نہیں دیکھے گئے۔ حتیٰ کہ کسی اور ملک کی سڑکوں پر بھی بے حیائی کا ایسا طوفان نہیں دیکھا گیا۔ وہاں پر عورت نے واقعی ’’وومن ڈے‘‘ منایا، جب کہ پاکستان پر تو ہر جانب سے اور ہر میدان میں دشمن سازش کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔
اے مغرب سے مرعوب خاتون، تم جس ’’گھٹیا مرد‘‘ سے آزادی چاہتی ہو، تمہیں یاد دلا دیتا ہوں، وہ مرد مشرقی و اسلامی اقدار کا حامل مرد نہیں، جو عزت اور وقار کے ساتھ صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہو، جو اپنی بساط کے مطابق اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتا ہو، جو اپنی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جو شادی سے لے کر لحد تک کا ساتھ دیتا ہو اور جس مرد نے اپنی خاندان کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالی ہو، اور جو اپنی عورت کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہو، وہ مرد ’’گھٹیا‘‘ نہیں بلکہ ’’معزز‘‘ ہوتا ہے۔ ہاں، وہ مرد گٹھیا ہے جس کا بستر تم نے ’’حرام طریقہ‘‘ سے گرم کیا، جس نے تمہارے پیٹ میں حرام کا تخم بویا، جس کی راتوں کو تم نے رنگین بنا دیا اور جس طرح تم دونوں نے اللہ کے حلال کردہ نکاح کو بوجھ سمجھ کر حرام کاری سے اپنی جنسی تسکین کا سامان پیدا کیا، مگر افسوس جب تم بیمار ہوئی، جب تمہارا ناجائز بچہ پیدا ہوا، جب تم عمر رسیدہ ہوئی اور جب تمہاری جوانی کو زوال آیا اور حسن ماند پڑگیا، اور جب تمہیں سہارے کی ضرورت پڑی، تو اس نے تمہیں چھوڑ دیا۔ تم ’’اولڈ ہوم‘‘ میں زندگی کے شب و روز گزارنے پر مجبور ہوئی اور آخر میں سسک سسک کر گلی محلے میں پڑے ہوئے کسی آوارہ جانور کی طرح ایک انجان موت مرگئی۔ ہاں، تم اُس گھٹیا مرد سے ضرور آزادی حاصل کرنے کی ترغیب دو۔ گھر تمہارے لیے قید ہے، مگر باحیا عورتوں کے لیے محفوظ اور امن و سکون کا قلعہ و حصار ہے۔
عورت کی فطرت الگ، مرد کی الگ ہے۔ کوئی مرد بچہ نہیں جن سکتا، نہ کسی مرد کو ماہانہ مخصوص بیماری ہوسکتی ہے۔ مرد جنگیں لڑتا ہے جب کہ صنفِ نازک کی فطرت میں جاذبِ نظر اور حسین نظر آنے، نازک بدن رہنے کی خواہش موجزن ہوتی ہے۔ صنفِ نازک ہتھیاروں کی نہیں زیور کی دلدادہ ہوتی ہے۔ عورت کو عورت رہنے دیجیے، اسے مرد نہ بنائیں۔ پردہ مسلمان عورتوں کی زینت ہے۔ ان کی حیا ہے ان کی پہچان ہے۔ عورت بیٹی ہے، تو رحمت ہے، بیوی ہے، تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث، اور ماں ہے، تو اس کے قدموں میں جنت ہے۔
اسلام سے پہلے عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ایک مرد کئی کئی عورتوں سے شادی کرتا تھا۔ کوئی قدغن نہیں تھی۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ایک حد مقرر کر رکھی ہے، جب کہ باقی مذاہب کے مرد بغیر نکاح کے آج بھی کئی ناجائز تعلقات استوار کرکے تمام حدود و قیود سے آزاد ہیں۔ وراثت کا قانون آج تک کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ مغرب میں آج بھی سب سے زیادہ خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہیں۔ آج بھی چہرے پر تیزاب ڈالنے کے کیس مغرب میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان کا خاندانی نظام درہم برہم ہے۔ مغرب کے مرد و زن اس وقت انگشتِ بدندان رہ جاتے ہیں جب ان سے مشرق کا کوئی فرد یہ کہے کہ ہم تو ایک عورت سے جُڑے ہوئے ہیں اور آخر تک نبھاتے ہیں۔ کیوں کہ مغرب کی نہ تو کوئی خاتون محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی مرد، جو متعدد بوائے اور گرل فرینڈز نہ رکھتی ہوں۔ وہاں کی عورتیں ہمارے خاندانی نظام کو ترستی ہیں۔ میرے کئی دوست مغربی ممالک کے شہری ہیں۔ ان میں ایک دوست عمرہ کی سعادت حاصل کرنے آئے ہوئے تھے۔ ازراہِ مذاق ان سے کہا کہ تم لوگوں کو شہریت مل چکی ہے اور ہم ابھی تک اِقامہ پر قائم ہیں، تو ہنس کر کہنے لگے: تم خوش قسمت ہو اور آخر میں تم ہی کامیاب اور خوش ہوگے۔ کیوں کہ وہاں ہم مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہے، جو بقول ان کے 18 سال کے بعد وہ آپ کے نہیں رہتے۔ اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں۔ جہاں رہیں، جس کے ساتھ رہیں، کوئی زور زبردستی ان پر نہیں کی جاسکتی۔
خدارا، اس معاشرے کے خاندنی نظام کو تباہی و بربادی کے راستہ پر نہ ڈالیں۔ حکومت ان مغربی این جی اوز جو پاکستان میں بے شرمی کے ماحول کو پروان چڑھا رہی ہیں، کو اس طرح آزادی نہیں دینی چاہیے۔ کیوں کہ اس طرح کا ایجنڈا دوسروں پر مسلط کرنا بہرحال انتہاپسندی اور شدت پسندی ہی کے زمرے میں آتا ہے، چاہے وہ مذھب کے نام پر ہو، یا لبرل ازم کے نام پر۔
خواتین کی آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلانے کو بند کیا جائے۔ مجھے وفاقی وزیرِ اطلاعات صمصام بخاری کے اس بیان پر بھی بہت افسوس ہوا جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، جب کہ دوسری طرف وفاقی محتسب کشمالہ طارق بھی پاکستانی معاشرے اور معاشرتی روایات کے منافی سرگرم افراد کی دفاع کر رہی تھیں۔
ایک طرف حکومت مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہے، تو دوسری طرف لبرل انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ ان دونوں انتہا پسندیوں کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ دونوں معاشرہ کے لیے زہر قاتل ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں