اسحاق میاںکالم

انصاف ہونا چاہیے!

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک وکیل کا اپنی والدہ کے علاج کے دوران میں ایک ڈاکٹر سے تکرار ہوجاتی ہے۔ وکیل اور ڈاکٹرز میں معمولی ہاتھاپائی ہوجاتی ہے۔ وکیل ڈاکٹر کے خلاف کیس درج کرتا ہے۔ اس کے بعد صلح صفائی ہوجاتی ہے اور معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے، مگر پھر بدھ کے روز اچانک سیکڑوں وکلا لاہور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف لشکر کی صورت میں روانہ ہوجاتے ہیں۔ دو ڈھائی گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد اسپتال کا مین گیٹ توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور اسپتال پر حملہ کرکے ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ اسپتال میدانِ جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ جگہ (اسپتال) جہاں دو ملکوں کے درمیان جنگ کی صورت میں بھی نقصان نہیں پہنچایا جاتا، وہ جنگ کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔
پی آئی سی میں جاب کرنے والے ایک ینگ ڈاکٹر محمد عرفان کی وکلا کے خلاف مضحکہ خیز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد وکلا میں اشتعال پیدا ہوا۔ کالے کوٹ میں ملبوس پڑھے لکھے قانون دان، پڑھے لکھے سفید کوٹ پہنے علاج معالجے میں مصروف مسیحاؤں پر ٹوٹ پڑے۔ اس موقع پر ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ ایمرجنسی، آپریشن روم اور کارڈیک کیئر یونٹ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مریضوں کے آکسیجن ماسک ہٹا دیے گئے۔ دل کے مریضوں کی وہ ادویہ جو انفیوژن کی صورت میں بذریعہ ورید دی جاتی ہے، ان میں خلل ڈالا گیا۔ شور شرابا، غل غپاڑہ دل کے مریضوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے، لیکن وہاں جو تماشا ہوا، پوری دنیا نے دیکھ لیا، جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔
یہ لڑائی دو جاہل قوموں یا جاہل گروہوں کے درمیان نہیں تھی، بلکہ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ معاشرے کے پڑھے لکھے، عقل مند، ذہین اور مہذب پیشوں سے وابستہ افراد کے درمیان تھی، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ کیوں کہ تاریخ میں اس نوعیت کی دہشت گردی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
قارئین، گذشتہ تین چار دہائیوں سے پاکستان میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ علم حاصل کرنے کے باوجود جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔ ظلم، جبر، تشدد اور زیادتی معاشرے کو پستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ قوم طبقات میں تقسیم نظر آتی ہے۔ صوبائیت، لسانیت، قومیت اور گروہی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے۔ منفی رحجان پر مبنی افکار کو زیادہ ترویج دی جا رہی ہے۔ قوم کی اکثریت اخلاقیات کا سبق بھول چکی ہے۔ کمزور کی تذلیل کرنا اپنی شان اور عزت سمجھی جاتی ہے۔ جب دو مہذب اور تعلیم یافتہ طبقات آپے سے باہر ہوکر، تہذیب کے دائرے سے نکل کر جہالت پر اتر آئیں، اور باہم دست و گریبان ہوں، تو عام شہریوں سے کیا گلہ اور کیا شکوہ کیا جائے؟
پنجاب میں بیوروکریسی کے باربار تبادلوں اور چار آئی جیز کے تبادلے بھی پنجاب پولیس کا قبلہ درست نہ کرسکے۔ پی آئی سی حملہ میں پنجاب پولیس کا کردار انتہائی مشکوک، شرمناک اور خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے وہ وکلا کے سہولت کار ہوں۔ انڈین مووی ”نائک“ کے ایک سین کی طرح پولیس اس وقت تک خاموش تماشائی بنی رہی، جب تک وکلا کا مشتعل ہجوم اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے افسرانِ بالا نے پولیس کو بروقت ایکشن لینے سے منع کر رکھا ہو۔ پنجاب پولیس کے مشکوک کردار کو بھی زیرِ تفتیش لانا چاہیے۔ جو کچھ پی آئی سی میں ہوا، قوم کے لیے باعث شرم و رسوائی ہے۔
کالے کوٹ والوں نے جو کیا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکومت اس واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کو قوم کے سامنے لائے۔ انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے۔ انہیں سخت ترین سزا دی جائے، تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ معمولی تکرار اور صلح صفائی کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر محمد عرفان کی ویڈیو دوبارہ کس نے اور کیوں کر وائرل کرائی؟ وکلا کو مشتعل کرنے اور اتنی ہنگامہ آرائی برپا کرنے پر کس نے اکسایا؟ اس تمام تر صورت حال کے ذمہ دار کون کون ہیں؟ ان واقعات سے نبردآزما ہونے کے لیے سخت قوانین بنانا اور ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
وکلا گردی سمیت ہر قسم کے بگاڑ کی روک تھام کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وکلا، ڈاکٹرز پر اپنی زور آزمائی کرتے، تو اور بات تھی، مگر موت سے لڑتے مریضوں اور ان کے تیمارداورں پر ظلم ڈھانا کہاں کا انصاف ہے؟ اسپتال کی عمارت، قیمتی مشینری سمیت دوسرے املاک کو نقصان پہنچانا، مریضوں کی آکسیجن اور دل کی ادویہ پر مشتمل انفیوژن نکالنا اور ان کو موت کے گھاٹ اتارنا ایک بدترین فعل تھا جو وکلا سے سرزد ہوا ہے۔ ان تمام مریضوں کے قاتل جو ہنگامہ آرائی کے باعث چل بسے، ان کے قاتل ہنگامہ آرامی میں ملوث وکلا ہی ہیں۔ پاکستان کی عدالت میں ان مریضوں کے قتل کی سزا وکلا کو ملے یا نہ ملے، لیکن اللہ تعالی کی عدالت میں ضرور اس کا حساب برابر ہوگا۔ کسی بھی انسان کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے جو جانے انجانے میں آخرت کی ابدی زندگی کی بربادی کا باعث ہو۔
قارئین، اپنے ملک کی یہ حالت دیکھتا ہوں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آخر ہم من حیث القوم کب انسانیت کی سبق سیکھیں گے؟ ہم کب تہذیب یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہوں گے؟ کب ہم کو اقوام عالم میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟ کیا تحفظ، امن، برداشت اور خوشحالی اس قوم کی نصیب میں نہیں؟ کب ہم جیو اور جینے دو کا عملی نمونہ بنیں گے؟ اسلام تو سراپا امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ دورانِ جنگ بھی دشمن کے نہتے و غیر مسلح افراد، مریضوں، ضعیفوں، خواتین، بچوں اور حتی کہ فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے۔
انصاف بہرحال ملنا چاہیے!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں