تصدیق اقبال بابوکالم

”غگ نیوز“ کا سیمینار اور مشاعرہ

آج کے جدید دور میں جہاں دنیا سکڑ کر ہماری مٹھی میں آگئی ہے۔ اس کا سارا سہرا الیکٹرانک میڈیا کے سر جاتا ہے۔ دنیا جہاں میں ہر قسم کے میڈیا ہاؤسز ہیں۔ یہ ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ اس تناور درخت میں ایک چھوٹی سی شاخ ”غگ نیوز“ کی بھی ہے۔ خوازہ خیلہ (سوات) کے دو سر پھروں (مراد اور مختار) نے پچھلے سال یعنی اکتوبر 2018ء میں اس کی شروعات کی۔ یہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا کا اک نیوز چینل ہے، جس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے بلکہ مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ان کی نشریات کسی ایک علاقے تک محدود نہیں اور نہ یہ کسی پارٹی، دھڑے یا مخصوص گروہ کے ایجنڈے پہ ہی کام کرتے ہیں۔ ان کی اپنی سوچ اور پالیسی ہے۔ یہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ایک سال پورا ہونے پہ یہ اپنے نمائندوں کا دائرہ بھی وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کی تیاریاں شروع ہیں۔ ابھی تک انہوں نے جو سماجی، سیاسی اور ادبی پروگرام نشر کیے ہیں ان میں مختلف انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں کے علاوہ ”لٹون“ تحقیقی سلسلہ ہے۔ ”حجرہ“ ثقافتی اور معاشرتی پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے جب کہ مختلف سیمینار اور مشاعرے ادبی حوالے سے ان کی کاوشیں ہیں۔
گذشتہ دنوں یعنی 16 اگست کو انہوں نے اباسین سکول اینڈ کالج خوازہ خیلہ (سوات) میں ایک ادبی سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ سیمینار میں دو موضوعات تھے۔ معروف محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی کو ”ادب او دَ سیاست تعلق“ کا عنوان دیا گیا تھا جب کہ نابغہئ روزگار محقق اور ادیب محمد پرویش شاہین کو ”ٹولنہ کی یو والے“ کا عنوان تفویض کیا گیا تھا۔ سیمینار کا دوسرا حصہ مشاعرے کے لیے مختص تھا، جس میں صرف 20 شاعروں کو کلام پیش کرنے کی پیشگی دعوت دی گئی تھی۔ معروف سماجی کارکن محمد رشاد خان پروگرام کے میزبان تھے جن کی تعلیمی خدمات بھی اظہر من الشمس ہیں۔ پروگرام کی صدارت بدرالحکیم حکیم زئی کر رہے تھے جب کہ محمد پرویش شاہین مہمانِ خصوصی تھے۔ کمپیئرنگ کے فرائض مختار احمد مختارؔ اور سراج الدین سراجؔ نبھار ہے تھے۔ معاذ احمد میاں کی تلاوت کے بعد مشاعرہ شروع کردیا گیا۔ مشاعرے کے پہلے شاعر اظہار یوسف زئی کو مَیں پہلی بار سن رہا تھا۔ اس نوخیز شاعر نے محفل ہی تو لوٹ لی۔ مَیں تو عش عش کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ان کے نمونے کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
وس بہ دے پلارانو لہ یو پلار راپیدا کیگی
وس بہ دہ موسیٰ د ہمسا مار راپیدا کیگی
گرانہ زما خاورہ خو بہ تل خاموشہ نہ وی
وس بہ دلتہ خامخا اظہار راپیدا کیگی
ان کے بعد میرے عزیز دوست احسان اللہ شاہدؔ کی باری تھی، جنہوں نے حال ہی میں شاعری شروع کی ہے، لیکن کیا کمال کی شاعری کرتے ہیں۔ اُن کی غزل کا مطلع تھا:
پہ ملک کی زمونگ مڑہ سہ قانون نشتہ خو یونو
پہ ژوند کی زمونگ ہڈو سہ سکون نشتہ خو یونو
ان کے بعد حاضرین کو تصدیق اقبال بابوؔ (راقم) کی اوٹ پٹانگ بھی سننی پڑی، جو اپنی ایک ہی واحد لا شریک غزل پہ بڑا اتراتا پھرتا ہے۔ اس کے بعد شیریں لب و لہجے کے میٹھے انسان محمد زمان زمانؔ نے خوبصورت غزل پیش کی۔ ان کے بعد میرے یار روح الامین نایابؔ کو بھی کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ کلام تو انہوں نے سنایا لیکن یہ ضرور کہا کہ ”ہم تو نثر کے بندے ہیں، کوئی ٹاپک دو دھڑلے سے تقریر دے ماریں گے۔“ ان کے بعد شباب یوسف زئی آئے، بعد ازاں فضل تواب خاکسارؔ نے اپنی خوبصورت نظم میں ”پختون ثقافت“ کو بڑے اچھوتے انداز میں پیش کرکے داد سمیٹی۔ پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ نے بھی چشم کشا نظم پیش کی۔ ان کے بعد پروگرام کے میزبان محمد رشاد خان (گل دا) کو تقریر کا موقع دیا گیا، جنہوں نے کہا کہ ”ہماری مصالحتی کمیٹی نے مختلف نوع کے جھگڑوں میں ملوث 900 گھرانوں کی صلح کرائی۔ ان کی تقریر کے بعد مشاعرے کا سلسلہ پھر سے جوڑ دیا گیا۔ معروف شاعر محمد حنیف قیسؔ نے اپنا کلام سنایا۔ ان کے بعد فضل معبود شاکرؔ نے اپنے لوچ دار لہجے سے سماں ہی تو باندھ دیا۔ ان کا قطعہ ملاحظہ ہو:
کہ شنڈے نتیجے شوے د کتاب د انقلاب
بیا وار دے د سرو وینو د سیلاب د انقلاب
د قام بچی بہ سنگ د انقلاب د پارہ پاسی
اول ورتہ خودل غواڑی نصاب د انقلاب
بعد ازاں ظاہر شاہ ظاہرؔ جیسے درویش نے کلام پیش کیا۔ ان کے بعد بلبلِ سوات ظفر علی نازؔ نے پُرتاثیر ترنم کے ساتھ اپنی غزل سنا کر بھر پور داد وصول کی۔ اُن کے بعد اسی انداز اور اسی ترنم میں علی خان اُمیدؔ نے بھی اپنے خوبصورت کلام سے لوگوں کو سر دُھننے پہ مجبور کیا۔ برکت علی برکتؔ اور فیض علی خان ایڈوکیٹ نے بھی اپنا پنا کلام پیش کیا، جب کہ آخر میں محمد ایوب ہاشمی نے اپنی وہ معروف نظم سنائی جس میں معدوم ہوتی ہوئی مقامی اشیا اور اوزار وغیرہ کو نظم کے قالب میں ڈھال کے اک انوکھا کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے۔ جسے سن کر محمد پرویش شاہین نے کہا: ”اس نظم پہ تو پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جاسکتا ہے!“ سب سے آخر میں ناصر ریشمؔ نے ساز اور آواز کے تال میل سے اقبال مومند کا کلام بھی پیش کیا۔
اب سیمینار کا دوسرا حصہ شروع کیا گیا۔ جس میں پروگرام کے مہمانِ خصوصی محمد پرویش شاہین کو اپنا مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے ”پہ ٹولنہ کے یو والے“ کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ”ہم پختون قوم کو ایک ہونا ہوگا۔ ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہے۔“ ان کے بعد پروگرام کے صدرِ محفل پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی کو اپنا مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے بھی شاہین صاحب کی طرح زبانی کلامی ”ادب او دَ سیاست تعلق“ کے عنوان سے چشم کشا حقائق سے پردے سرکا کر ہماری آنکھیں کھول دیں۔ انہوں نے کہا کہ ”میرا پانچ لاکھ نوجوان عرب کے ریگستانوں میں ریت کیوں چھان رہا ہے۔ اس لیے کہ اُسے معیشت کا مسئلہ ہے۔ جس کا ذمہ دار سیاست دان ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”شاعر کا کام مرض کی تشخیص کرنا ہے اور علاج سیاست دان کا کام ہے، لیکن میرا شاعر ابھی اس مقام پہ نہیں پہنچا کہ وہ سائل کی طرح کہے کہ ”راواخلئی بیا د انقلاب سرہ نشانونہ!“ پروگرام کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا تھا، لیکن فیض علی خان ایڈوکیٹ اور ظاہر شاہ ظاہرؔ کی تلخی کی وجہ سے یہ سلسلہ جلد ختم کرکے چائے کا اعلان کردیا گیا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں