فیاض ظفرکالم

غیرت کے نام پر قتل کی اصل وجوہات

سیدو شریف پولیس تھانہ کی حدود میں واقع پولیس چوکی کوکڑئی میں گذشتہ روز نادر خان ساکن بٹورہ سیدو شریف پستول سمیت گھبراتا ہوا داخل ہوا۔ وہاں موجود پولیس کو بتایا کہ مَیں نے اپنی بیوی کو گھر میں غیر مرد کے ساتھ پاکر قتل کر دیا ہے۔
ایف آئی آر میں ملزم نادر خان نے بتایا کہ رات کو میں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ کمرے میں موجود تھا کہ میری پہلی بیوی 23 سالہ مسماۃ (ح) کے کمرے سے مردانہ آواز سنائی دی۔ نادر خان کے بقول، مَیں باہر نکلا اور پہلی بیوی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی، لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ شور سن کر اہلِ خانہ اُٹھ گئے۔ دروازہ توڑنے کی کوشش کی، تو میری پہلی بیوی نے جب دروازہ کھولا۔ اندر کیا دیکھتا ہوں کہ 29سالہ لیاقت علی موجود تھا جو بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے اسے پکڑ کر چارپائی سے باندھ لیا۔ پھر مَیں نے پستول سے فائرنگ کرکے پہلے لیاقت علی اور اس کے بعد اپنی پہلی اہلیہ کو قتل کردیا۔
ملزم نے پولیس کو مزید بتایا کہ وہ قطر میں کام کرتا ہے۔اس کی اہلیہ کے لیاقت علی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا پتا چلا جس کی رپورٹ اس نے اُس وقت پولیس کو دی تھی۔ بقولِ ملزم، اس کے بعد مَیں نے دوسری شادی کی۔ مقتولہ سے میرے دو بچے بھی ہیں۔
یوں پولیس نے دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاکے حوالے کردیا۔
قارئین، سوات میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کی خود کشیوں کے واقعات زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ قتل ہونے یا خودکشی کرنے والی خواتین میں سے 99 فیصد کے شوہر بیرونی ممالک میں مقیم ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو شادی کے چند دن بعد ہی شوہر محنت مزدوری کے لیے بیرونِ ملک چلا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ”اویکننگ“ کے اعداد و شمار کے مطابق سوات میں رواں سال غیرت کے نام پر 10 خواتین اور ایک مرد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اس طرح 10 خواتین نے خود کشیاں کی ہیں۔
دیگر تفصیل سال بہ سال کچھ یوں ہے:
2020ء میں 29 اور 2019ء میں 32 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاچکا ہے۔
اس طرح سال 2018ء میں 16 خواتین کو قتل کیا گیا اور 12 نے خودکشی کی۔
سال 2017ء میں 28 خواتین کو قتل کیا گیا اور 22 نے خودکشی کی۔
سال 2016ء میں 34 خواتین کو قتل کیا گیا اور 19 نے خود کشی کی۔
سال 2015ء میں 27 خواتین کو قتل کیا گیا اور 12 نے خودکشی کی۔
سال 2014ء میں 14 خواتین کو قتل کیا گیا اور 1 نے خودکشی کی۔
سال 2013ء میں 29 خواتین کو قتل کیا گیا اور 1 نے خود کشی کی۔
2012ء میں 16 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا اور1 نے خود کشی کی۔
رپورٹ کے مطابق ان سب میں سے 99 فیصد خواتین کے شوہر بیرونِ ملک مقیم تھے۔
قارئین، غیرت کے نام پر قتل کرنے والے بیشتر ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔ سزا سے بچنے کی وجوہات جاننے کے لیے سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل صابر شاہ سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کا ”راضی نامہ“ بھی عدالت تسلیم نہیں کرتی۔ اس طرح کے قتل میں ملزمان کم زور شہادت یا شہادت نہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ صابر شاہ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خاتون، یا پھر مرد اور خاتون دونوں اکثر رشتہ دار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تو پہلے رپورٹ نہیں کرتے، جب پولیس کے دباؤ میں رپورٹ کر بھی دیتے ہیں، تو پھر اس میں شہادت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ملزم بری ہوجاتا ہے۔ اکثر اوقات تو غیرت کے نام پر قتل میں خاندان رپورٹ درج نہیں کرتے، جس کی وجہ سے پولیس اپنی مدعیت میں رپورٹ درج کرتی ہے۔ اس میں موقعہ کے گواہ یا دیگر شہادت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ملزم آسانی سے بری ہوجاتا ہے۔
اس حوالہ سے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر میاں نظام علی کا کہنا ہے کہ بعض شوہروں کو ایک ذہنی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ پر شک کرتے ہیں۔ جب بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے، تو وہ بیوی کے قتل تک جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن خواتین کے شوہر زیادہ عرصے تک بیرونی ممالک ہوتے ہیں، تو ان خواتین میں ڈیپریشن اور انزائٹی کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔ علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے بڑا اقدام کرلیتی ہیں۔ ڈیپریشن اور انزائٹی قابلِ علاج امراض ہیں، جن خواتین میں اس بیماری کی علامات ہوں، تو ان کو قریبی ماہرِ نفسیات سے علاج کرانا ضروری ہے۔ اور جن خواتین کے شوہر بیرونی ممالک مقیم ہیں، ان کو چاہیے کہ کم ازکم اپنی اہلیہ سے روزانہ، دوسرے روز یا ہفتہ میں فون کے ذریعے بات کریں، یا واٹس اَپ پر ان سے ویڈیو کے ذریعے بات چیت کریں۔ ان کے ساتھ نرم مزاج میں بات کریں۔ ان کے مسائل معلوم کریں اور ان کے حل کی کوشش کریں۔ نیز ان کو دلاسہ دیں جس سے خودکشی کے کیسوں میں کمی آسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں