ڈاکٹر محمد علی دینا خیلکالم

تاریخِ ریاستِ سوات (تبصرہ)

محمد آصف خان نے ’’تاریخِ ریاست سوات و سوانحِ حیات بانیِ ریاستِ سوات حضرت میاں گل گل شہزادہ عبدالودود خان باچا صاحب‘‘ کے عنوان سے 1958ء میں پشتو زبان میں ایک کتاب تحریرکی۔ بعد میں اس کا اُردو ترجمہ مصنف محمد آصف خان نے خود، ’’تاریخِ ریاستِ سوات و سوانحِ حیات میاں گل گل شہزادہ یعنی شاہ عبدالودود خان معمارِ ریاستِ سوات‘‘ کے نام سے فیروز سنز پشاور سے شائع کیا۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ’’دی سٹوری آف سوات سٹیٹ ایز ٹولڈ بائی دی فاونڈر میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب ٹو محمد آصف خان‘‘ کے نام سے، اشرف الطاف حسین نے 1962ء میں کیا۔ اُردو اور پشتو کتاب کے نام میں معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ پشتو اور اُردو کتابوں کے مضامین میں بھی فرق پایا جا تا ہے۔ یہاں پر اُردو میں لکھی گئی یا ترجمہ کی گئی اسی کتاب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ پشتو میں لکھی گئی کتاب پر تاریخِ تحریر 1958ء درج ہے، لیکن اُردو ترجمہ پر تاریخِ اشاعت درج نہیں۔ یہ کتاب تصحیح نامہ کے علاوہ 459 صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدائی تین صفحات پر بالترتیب عرفیؔ، اقبالؔ اور حالیؔ کے چند اشعارا ور اقوال درج ہیں۔ مشاہیر کی سوانح عمری کے بارے میں حالیؔ کا یہ قول درج کیا گیا ہے کہ مشاہیر کی سوانح عمری اور تاریخ کے مطالعے سے زندگی بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔
فہرستِ مضامین سے پہلے مصنف نے ان کتابوں کے نام درج کیے ہیں جن سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کتابوں میں ’’تاریخِ خورشید جہان‘‘، ’’پٹھانوں کی تاریخ از قاضی عطاء اللہ خان مرحوم‘‘، ’’تذکرہ الابرار ولاشرار از اخوند درویزہ‘‘، ’’دربارِ اکبری از مولانا آزاد‘‘، ’’اٹک کے اُس پار‘‘، ’’انقلابِ افغانستان از عبدالحمید خان‘‘، ’’تاریخِ ہند از محمد قاسم فرشتہ‘‘، ’’ایران بعہد ساسان از پروفیسر آرتھر کرسٹن مین‘‘، اور ’’پشتو بائبل ترجمہ از قاضی عبدالرحمان‘‘ شامل ہیں۔
یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں سوات کی قدیم تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور درجِ بالا کتابوں سے استفادہ اسی حصے کے لیے کیا گیا ہے۔ دوسرا، تیسرا اور چوتھا حصہ میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی سوانح عمری پر مشتمل ہے، جو اس نے مصنف محمد آصف خان کو بیان کیا ہے۔ پانچواں حصہ مینو سواد کے عنوان سے صحت افزا مقامات، قابلِ دید عمارات، مشہور پہاڑوں، جھیلوں اور چند اور موضوعات پر مشتمل ہے۔
فہرستِ مضامین کے بعد نو صفحات پر مشتمل محمد آصف خان کا لکھا ہوا دیباچہ اسی کتاب کا حصہ ہے۔ اسی دیباچے میں درجِ ذیل چار ہدایات بھی شامل ہیں جو بادشاہ صاحب کی طرف سے مصنف کو اس کتاب لکھنے کے لیے دی گئی تھیں۔ ان ہدایات کے مطابق بادشاہ صاحب نے ریاستِ سوات اور ان کی شخصیت کے بارے میں مبالغہ آمیز بیانات سے منع کیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مصنف کو زبان خالص ہونے، عام فہمی، آسانی اور سلاست کے بارے میں بھی بتا یا تھا اور مشکل اور دیگر زبانوں کے دخیل الفاظ کے استعمال سے منع کیا تھا…… لیکن اس کے باوجود مصنف نے کافی مبالغہ آمیز باتیں کی ہیں اور زبان میں بھی کہیں کہیں مشکل پسندی نظر آتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں