ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

سول وار

پختون علاقوں میں ’’سول وار‘‘ جیسی صورتحال بن رہی ہے۔ اداروں کے پاس پختون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی مزاحمتی اور احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔ پی ٹی ایم نے آزادیِ اظہار، ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ، لاپتا افراد، نقیب اللہ شہید کے قتل کے ملزم راؤ انوار کی پھانسی اور وزیرستان سے بارودی سرنگوں کی صفائی جیسے جائز مطالبات کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور اس جیسی دیگر تحاریک بھی ناکارہ کارتوس ثابت ہوئیں۔ اس لیے تذویراتی ایسٹس (امن کمیٹیز) کو گڈ طالبان کی شکل میں مبینہ طور پر استعمال کرنے کا ارادہ ہے۔
اس صورتحال میں، مَیں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی ایم کے سرکردہ راہنماؤں اور سپورٹرز کو ہوش سے کام لینا چاہیے۔ عدم تشدد کے علاوہ پی ٹی ایم کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ بعید از قیاس نہیں کہ اس میں پی ٹی ایم کو قربانی دینا پڑے جو کہ وہ دے رہی ہے۔ کسی بھی حال میں پی ٹی ایم کو عدم تشدد کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تحریک کی روح کو سمجھتے ہوئے مزاحمت اور احتجاج کا راستہ اپنائے رکھنا چاہیے۔ ریاستی اداروں بشمول سیاسی پارٹیوں سے پی ٹی ایم کے جائز و قانونی مطالبات کے حق میں اتفاق رائے کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے ۔
قارئین، میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت حتی الامکان مروجہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ پی ٹی ایم کو پریشر گروپ کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ پی ٹی ایم ایک غیر جماعتی تحریک ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی ایم کی ٹوپیاں افغانستان سے آرہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کو پی ٹی ایم کی ’’ٹوپی‘‘ سے ڈر لگ رہا ہے۔ مذکورہ ٹوپی کو ’’را‘‘ اور این ڈی ایس سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس کے ٹویٹر اور فیس بک اکاؤنٹ کو دوسرے ممالک سے چلانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔ کل کلاں یہ بھی ممکن ہے کہ پختونوں کی شلوار قمیص کو دوسرے ممالک کا کہہ کر اس کو بھی بند کیے جانے کا قصد کیا جائے۔ بھئی، بتاتا چلوں کہ یہ کلچر ہے، اس کو ہر گز ختم نہیں کیا جا سکتا۔
شنید ہے کہ ملا نذیر گروپ کو دہشت گرد گروپ کی بجائے ’’امن کمیٹی‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ اس کو پی ٹی ایم کے خلاف مبینہ طور پر استعمال کرنا ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ وانا وزیر ستان میں پُرامن احتجاج کے خلاف مذکورہ کمیٹی کو استعمال کیا گیا۔
ریاستی ادارے عوام کے پیسوں سے تنخواہیں لے رہے ہیں، وزیر ستان میں پے در پے کئی آپریشن کیے گئے۔ عشرے وہاں گزارے گئے۔ وہاں پر فوجی چھاؤنیاں اور چیک پوسٹیں بنائی گئیں، لیکن اس کے باوجود امن و امان کی ذمہ داری امن کمیٹی کو سونپنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اس سے ریاستی اداروں بشمول سیکورٹی ایجنسیوں کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑانہیں ہوتا؟
کیا امن قائم کرنا ’’امن کمیٹی‘‘ والوں کا کام ہے ؟
وزیر ستان میں امن کمیٹی اور مبینہ طور پر ایف سی ادارے والوں نے پی ٹی ایم کے احتجاجی مظاہرے پر فائرنگ کرکے دھاوا بولا جس سے کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے نتیجے کے طور پر پشاور، کوئٹہ، وانا، ژوب، سوات، بونیر اور اسلام آباد وغیرہ میں مظاہرے ہوئے۔ نیشنل پریس کلب کے سامنے تیس کے لگ بھگ احتجاجی مظاہرین کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ مذکورہ مظاہرین پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اور اب ان کو عدالت میں پیش کیے بغیر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
وانا میں پی ٹی ایم اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کی مذاکرات بدیں وجہ ناکام ہوئے کہ پی ٹی ایم نے ’’امن کمیٹی‘‘ کو مذاکرات سے باہر رکھنے کا جواب دیا، جس پر کرفیو کے باوجود امن کمیٹی والوں نے علی وزیر کو مارنے کی دھمکی دے ڈالی۔ اس وجہ سے علاقہ میں خوف و ہراس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اب پی ٹی ایم کے سپورٹرز علی وزیر کے گھر کے باہر تحفظ کے لیے پہرہ دے رہے ہیں۔ اسی اثنا میں سیکورٹی اداروں نے کرفیو لگا دیا لیکن کرفیو کے باوجود امن کمیٹی والے دندناتے پھر رہے ہیں۔ کرفیو کے باوجود اکھٹے ہوکر پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ادھر لاہور میں گل بخاری اینکر پرسن فری لانس صحافی کو چھے ڈبل کیبن گاڑیوں میں اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ میڈیا میں اس وجہ سے ایک کہرام سا برپا ہے۔ سوشل میڈیا میں علی وزیر کے تحفظ اور گل بخاری کی رہائی کے لیے مؤثر طریقے سے مہم جاری ہے۔
اس تمام تر صورت حال میں، مَیں سمجھتا ہوں کہ عالمی طور پر علی وزیر کے تحفظ اور گل بخاری کی رہائی میں ٹال مٹول کی وجہ ریاست کی بدنامی ہی ہوگی۔
ایک طرف پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف اداروں کی طرف سے پراکسی جنگ جاری کی گئی ہے۔ کور کمانڈر اوّل الذکر کے تمام مطالبات کو قانونی اور آئینی مانتے ہیں8 اور پی ٹی ایم کی ٹاپ لیڈر شپ کو ’’اپنا بچہ‘‘کہتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی پی ٹی ایم کے مطالبات کو جائز سمجھتی ہیں، جب کہ ان سب کے باوجود ان کے خلاف کارروائیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے لگتا یہی ہے کہ کسی طرح پی ٹی ایم کو دیوار سے لگایا جائے۔ پی ٹی ایم کی لیڈر شپ کو سیکورٹی اور تحفظ دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ پی ٹی ایم کی لیڈر شپ کو خدا نخواستہ اگر کچھ ہوتا ہے، تو اس کی ذمہ داری لازمی طور پر ریاست پر آئے گی۔ پھر شائد حالات کو قابو کرنا کسی کے بس میں نہ رہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ریاست ذمہ داری کا ثبوت دے کر پی ٹی ایم کے آئینی مطالبات کو حل کرے، ورنہ دوسری صورت میں وہ وقت دور نہیں جب حالات ریاست کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔
اب بھی وقت ہے!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں