امجدعلی سحابؔکالم

پروفیسر ولی محمد (تھانہ) کی یاد میں

’’ٹھہریے بابا جی، کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘
بابا جی کی چوں کہ سانس اُکھڑ چکی تھی، اس لیے انہوں نے دیوار کا سہارا لیا اور ہانپتے ہوئے جواب دیا: ’’میرے بچے (بھتیجے) کا آپریشن ہے۔ اسپتال میں اسے ہماری ضرورت ہے۔ اس لیے ہم وہاں جا رہے ہیں۔‘‘
چیک پوسٹ پر کھڑے بابا جی کے پوتے کی عمر کے ایک نوجوان جو کیپٹن تھا، نے گرج دار آواز میں کہا، ’’آپ لوگ ایک قدم بھی آگے نہیں جاسکتے۔ کیا آپ کو علم نہیں کرفیو نافذ ہے؟ ہمیں حکم ہے کہ کرفیو کے وقت چیک پوسٹ پر گزرنے والوں کو گولی مار دی جائے؟‘‘
بابا جی کو کیپٹن صاحب کی بات سخت ناگوار گزری۔ غصے سے لال ہوئے اور کہنے لگے: ’’آپ کو اپنے حکم کی پڑی ہے اور وہاں میرے بچے کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔‘‘
’’جو کہہ دیا سو کہہ دیا!‘‘ کیپٹن صاحب نے چیک پوسٹ پر کھڑے اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’چیک پوسٹ کو پار کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو، اُسے گولی مار دو!‘‘ یہ کہتے ہی کیپٹن صاحب خیمے کی طرف چل دیے۔ بابا جی لہو کے گھونٹ پیتے رہ گئے، مگر وہ بھی کہاں نچلا بیٹھنے والوں میں تھے۔ جیسے ہی سانس بحال ہوئی، کھڑے اہلکار جو پشتون تھا، کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’بھئی، یہ آپ کے کیپٹن صاحب کون ہیں اور کہاں کے رہنے والے ہیں؟‘‘ اہلکار جِز بِز سا ہوا جواب میں اُلٹا سوال کر بیٹھا، ’’کیوں جی، خیر تو ہے، ان سے کوئی خاص کام؟‘‘ بابا جی نے بلاتوقف کہا، ’’اگر میرے بچے کو کچھ ہوا، تو میں کیپٹن صاحب سے بدلہ لوں گا۔‘‘ اہلکار نے یہ سنتے ہی پیچھے خیمہ کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے باباجی کو دھیمی آواز میں کھیتوں کے راستے اسپتال جانے کا کہا۔
خدا بخشے یہ کہانی مجھے (ر) پروفیسر ولی محمد صاحب نے خود سنائی تھی۔ کہانی کے بابا جی کوئی اور نہیں بلکہ مرحوم خود تھے۔
قوم پرستی آپ کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتی تھی۔ برسبیلِ تذکرہ، ایک دن میں کالج میں سالِ دوم کے طلبہ کو غصہ ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ خدا کے بندو، اپنی اردو درست کرو۔ باقی ماندہ پاکستان میں اسی کمزوری کی وجہ سے ہمیں تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے بابا ’’فخرِ افغان‘‘ باچا خان تک کو معاف نہیں کیا گیا، ان کے حوالہ سے مشہور کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا قوم ایسا ہے، ہمارا قوم ویسا ہے۔‘‘ جلسہ میں بیٹھے ایک اردو بولنے اور سمجھنے والے شخص نے ٹکڑا لگایا کہ ’’خاں صاحب، قوم مؤنث ہوتی ہے نہ کہ مذکر!‘‘ آپ نے برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھئی، آپ کی والی مؤنث ہوگی، ہمارے والا مذکر ہے۔‘‘ یہ جملہ جیسے ہی ادا کیا، کمرۂ جماعت کا دروازہ کھلا اور مرحوم پروفیسر صاحب بغیر اجازت مانگے اندر داخل ہوئے۔ بڑے تحمل سے کہا کہ ’’سحابؔ ! آپ سے مجھے ایسی بے پرکی اُڑانے کی توقع بالکل نہ تھی۔ آپ نے باچا خان بابا کو پڑھ لیا ہوتا، تو اندازہ ہوتا کہ ان کی اردو کتنی اچھی تھی اور وہ کس پائے کے عالم تھے۔‘‘ اب پروفیسر صاحب سیاق و سِباق سے بے خبر تھے، اس لیے مَیں نے بھی بحث کو طول دینا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ بعد میں جب بات سیاق و سِباق کے ساتھ ان کے گوش گزار کی، تو انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے باقاعدہ معافی مانگی۔
ایس پی ایس کالج کے شعبۂ کیمیا کے محمد افضل خان، پروفیسر صاحب (مرحوم) کے لنگوٹیے ہیں۔ ان کے بقول مرحوم تھانہ کالج کے شعبۂ حیوانیات سے لمبے عرصہ تک وابستہ رہے اور وہیں سے سبک دُوش ہوئے۔ انہوں نے عمر کا اچھا خاصا حصہ گورنمنٹ ڈگری کالج باجوڑ، بنوں اور ڈی آئی خان میں گزارا۔ ’’آپ دوستوں کا محور تھے۔ آپ کی شخصیت میں ظرافت کا پہلو نمایاں تھا۔ پروفیسر عالمگیر صاحب نے اک دفعہ مرحوم کے حوالہ سے کہا تھا کہ ان کی شریکِ حیات کی فوتگی کے بعد اکثر ہم دوست احباب انہیں وقت کم دیا کرتے تھے۔ مبادا ہمارا ہنسی ٹھٹھا انہیں ناگوار گزرے۔ انہوں نے اک روز ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’شریکِ حیات داغِ مفارقت کیا دے گئی کہ آپ صاحبان نے تو مجھے انسانیت کے دائرے سے ہی خارج کر دیا۔ ‘‘
خدا کو شائد یہی منظور تھا، مگر شریکِ حیات نے ایک ایسے وقت میں ساتھ چھوڑ دیا، جب انہیں مرحومہ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ محمد افضل خان کے بقول، پروفیسر صاحب روزانہ نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد مرحومہ کی قبر پر حاضری دینے جاتے اور ان کے درجات بلند ہونے کی خصوصی دعا کرکے واپس بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کا راستہ ناپتے۔
سٹاف روم میں مرحوم کی نشست مخصوص تھی۔ بیٹھنے کا انداز بھی مخصوص، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں دے کر مکا سا بناتے اور اسے ٹھوڑی کے نیچے رکھتے۔ ایک دفعہ ذکر شدہ پوزیشن اپنائے خیالوں کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے کہ مَیں نے تفنن طبع کی غرض سے جھک کر ان کے کان میں کہا، ’’سر! کیا دوسرا پاکستان بنانے کا پروگرام ہے؟ ماشاء اللہ، علامہ محمد اقبال کی کاپی لگ رہے ہیں۔ باریش کاپی۔‘‘ انہوں نے اپنے مخصوص انداز سے چہرہ کے آدھے حصے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا، صاحبزادے! پہلے والے میں عوام کا حال ملاحظہ فرمایا ہے، دوسرے کی ہمت کوئی انتہائی بے حس شخص ہی کرے گا۔‘‘
جیسے حضرتِ جون ایلیا نے ایسے ہی کسی موقعہ پر فرمایا ہو:
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
محمد افضل خان کے بقول، ہمیشہ تھانہ سے آتے ہوئے گاڑی کی فرنٹ سیٹ میں بیٹھتے۔ کئی ہائی ایس والے ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات ان کی طبیعت سے واقف تھے۔ ان کے لیے اگلی نشست کا اہتمام ہمیشہ کیا جاتا۔ ’’ایک دفعہ ایک کنڈکٹر جو انہیں جانتا نہیں تھا، کی پروفیسر صاحب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر اَن بن ہوگئی۔ اس نے تہذیب کا دامن چھوڑتے ہوئے مرحوم کو طعنہ دیا کہ اگر اتنی ہی اگلی نشست محبوب ہے، تو پوری گاڑی کی بکنگ کیوں نہیں فرما لیتے۔ مرحوم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ آپ جائیے، ہم کرلیتے ہیں بندوبست۔ اور پھر پوری گاڑی کی بکنگ کرکے ٹھیک اڈے میں اتر کر دم لیا۔ کنڈکٹر موصوف کے پاس گاڑی روک کر، کرایہ ادا کیا اور اترتے سمے کنڈکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’بچّو، گاڑی کی بکنگ اتنی بڑی بات نہیں، مگر اپنے دادا کی عمر کے شخص کے ساتھ زبان درازی بہت بڑی بات ہے۔ ‘‘
کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے، تو ان سے رہا نہ جاتا۔ سٹاف ممبرز میں سے ایک کے ہاں تڑواں بچے پیدا ہوئے۔ ماں کا دودھ بچوں کے لیے ناکافی ہوا کرتا۔ مذکورہ سٹاف ممبر کی تنخواہ جسم و جاں کا رشتہ بہ مشکل برقرار رکھے ہوئی تھی۔ ایسے میں بچوں کے لیے دودھ خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مرحوم کو جب پتا چلا، تو ایک دن انہیں چپکے سے 20 ہزار روپیہ تھما کر کہا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
سٹاف روم میں اگر کبھی علمی بحث چھڑتی، تو آپ بطورِ خاص اس میں حصہ لیتے۔ اردو، فارسی اور انگریزی کا خوب مطالعہ کیا ہوا تھا، جہاں کہیں کسی کو رہنمائی کی ضرورت پڑتی، آپ دو قدم آگے ہوتے۔ آصف احمد کمال (شعبۂ انگریزی ایس پی ایس کالج) کے بقول: ’’مرحوم سے گفتگو کے دوران میں مجھے پتا چلا تھا کہ وہ ریڈرز ڈائجسٹ کے متواتر 24 سال تک قاری رہ چکے تھے۔‘‘
مشرق اخبار نومبر 2017ء یعنی ایس پی ایس سے اُن کی سبک دوشی کے دن تک ان کے ہاتھ میں دیکھا کرتا۔ مجھ سے اکثر اردو کے حوالہ سے بات کرتے۔ فارسی کے کئی مقولے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیے۔ ’’شامتِ اعمالِ ما، صورتِ نادر گرفت‘‘، ’’زبانِ یارِ من ترکی، ومن ترکی نمی دانم‘‘، مشک آں است کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘‘ ان امثال میں سے ہیں، جو ان کے دم قدم سے مجھے ازبر ہوئیں۔
اپنے وقت کے اچھے شکاری رہ چکے تھے۔ جس کی وجہ سے تادمِ آخر اپنے تمام چھوٹے بڑے کام خود کرتے۔ 2002ء میں سرکاری کالج سے سبک دوش ہوئے، جس کے دو سال بعد یعنی 2004 ء میں ایس پی ایس کالج کو جوائن کیا۔ یہاں سے نومبر 2017ء کو سبک دوش ہوئے اور زیادہ تر وقت عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔
مجھے ایک بات کا ہمیشہ قلق رہے گا کہ ان کا آخری دیدار اپنی مجبوری کی بنا پر نہ کرسکا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں