فضل مولا زاہدکالم

ایک اور حالہ دئی (آخری حصہ)

ہم بھی اندر کا ماحول دیکھنے اور خود کو سوراخ تک پہنچانے کے لیے تین کام کرتے ہیں۔ ایک، کچھ خود کو کھینچ کر لمبا کرکے۔ دوم، کچھ پاؤں کے نیچے پتھر رکھ کے۔ سوم،کچھ جوتوں کو اونچا کرکے۔ تب اندر جھانکنے کے قابل ہوتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کچی سی قبر کے اِرد گرد گہرے سبز رنگ کپڑے کی چادریں بچھی ہیں۔ چادروں پر دریائے سوات کی تراشیدہ چھوٹی چھوٹی گول مول پتھر پڑے ہیں۔ دیواروں اور درختوں پر جھنڈے لگے ہیں۔ اگربتیاں بھی اندر دھند پھیلاتی نظر آتی ہیں، جن کی خوشبو اور دُھواں دونوں یکمشت، انسانی نتھنوں کے اندر سے ہوتے ہوئے پھیپھڑوں تک جاپہنچتا ہے، تو یوں گماں ہونے لگتا ہے کہ اندر سے دُعا کی قبولیت کی بشارت آگئی ہے۔ دو تین مجاور مزار کی دیکھ بال اور صفائی کے علاوہ دیگر ”کراتب“ میں مصروف ہیں۔ مثلاً آنے والوں کو بابا کے کرامات بارے بتانا، آنے جانے والوں کا بندوبست کرنا، چندہ باکس پر نظر رکھنا اور لوگوں کو تلقین کرنا کہ ”قیامت کی فکر کریں اور چندے کے بکسے کی۔“ آس پاس کھڑے لوگ کٹوروں میں پڑا نمک خود بھی تبرک کے طور پر چاٹتے ہیں اور دوسروں کو بھی چاٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ پتھروں کو جسم پر ملتے ہیں۔ چھوٹی سی صندوقچی درخت کے ساتھ آویزاں ہے، جس میں سکّے ڈالنے کا ریل پیل ہے۔ باہر نکل کر کچے سڑک کنارے کبابی اور مچھلی فروشوں کی چھوٹی سی ہٹیاں ہیں، کباب کھانے کو دِل تو بڑ ا کرتا ہے، لیکن محدود بجٹ کے پیشِ نظر یہ عیش ممکن نہیں۔ اُن دنوں یہاں آنا اور واپس جانا پورے ایک دِن کا کھیل تھا۔ بھائیو، اب تو مزے ہیں۔
اپنے ڈاکٹروارث خان بتاتے ہیں کہ 2010ء کے سیلاب میں جہاں اس علاقے کی وسیع آبادی ڈوب کر بہہ گئی، وہاں یہ روضہ کئی دن تک پانی کے حصار میں رہا، لیکن اِس کو کوئی نقصان، کوئی گزند نہیں پہنچا۔ یہاں تک کہ اس کے کچے پتھر بھی اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ اِس بابا اوردریا کی رام کہانی کو، اِس تعلق کو کوئی کیا نام دے؟
حصار بابا کی باتیں کرتے ہوئے ہم بوساق نامی بستی پہنچ گئے اور پتا بھی نہ چلا۔ یہ یہاں سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ غدار ی کا ٹھپا لگنے کا اندیشہ نہ ہو، تو کہہ دیں؟ کاش، یہ کسی سمجھ دار قوم کی مملکت کا حصہ ہوتا، تو دِن رات ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں پر حملہ آور ہوتے۔ یہ ایک گلوبل ولیج کا منظر پیش کرتا۔ درجنوں ہوٹلز، موٹلز اور ریسٹ ایریاز ہوتے۔ دریا میں کشتی رانی ہوتی۔ میدانوں میں موج میلے ہوتے۔ اِن ڈھلوانوں میں ایسی نائٹ لائف ہوتی کہ دُنیا دیکھنے کو ترستی، تاریکیوں اور محرومیوں کے ڈسے یہاں کے خجل خوارلوگوں کی زندگی اتنی اجیرن نہ ہوتی، جتنی اب ہے۔
بوساق کی بستی اُن چار قبائلی اضلاع کے بیچ سینڈوِچ بنی پڑی ہے، جن کو پاکستانی آئین کے مطابق ”مزید“ علاقہ غیر کہنا اور لکھنا منع ہے۔ اس کے شرق پر ملاکنڈ کی بادشاہی اورغرب پر باجوڑ کا قبضہ ہے، شمال دیر کے زیرِ سایہ اور پرے جنوب پرمہمند اپنی ملکیت جتا رہا ہے۔ یہ تو وہی جگہ ہے، جہاں خاموش اور صاف ستھرا دریائے سوات اور شور شرابا کرتا ہوا مٹیالادریائے پنج کوڑا گلے ملتے ہیں اور اس بستی کی تنگ دامنی کو مزید تنگ دامنی بخشتے ہیں۔ دونوں دریا وہی پر پہاڑیوں اور تنگ گھاٹیوں سے ہوتے ہوئے، وادئی مہمند کا فیض حاصل کرکے چارسدہ میں آنے والے دریائے کابل میں غرقاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے باسی کہتے ہیں کہ سوات کے لوگ اپنے دریا جیسے برد بار اور خاموش، پنج کوڑہ والے اپنے والے جیسے جوشیلے اور دِل کے میلے۔ پنج کوڑہ والے، دِل کی میل والی بات پر دِل میلا نہ کریں اور نہ آمادہئ جنگ ہوں، اُن کو صفائی کرنے کا پورا حق ہے۔ بات ہے قدرتی۔
زمین، پانی، ہَوا اور حیاتیاتی تنوع کی چھاپ، حیوانات، نباتات اور انسانی سماج پر، طرزِمعاش ومعاشرت پر، سوچ وفکر اور بود و باش پر، حتیٰ کہ حسنِ اخلاق، رواداری اور اُٹھک بیٹھک پر، بڑے واضح طورپر اثر انداز ہوتا ہے۔ سرگودھا کے پودوں میں پلئی کے مالٹے کا ذائقہ کہاں سے لائے کوئی؟ اُس کے لیے تو وہ مٹی اورآب و ہَوا بھی چاہیے۔ سوات کے موٹے چاول کا ذائقہ چارسدہ والے میں کیسے اِنجیکٹ ہو؟ ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں جیسا حسن و اخلاق اور شرافت و متانت کسی اور میں کہاں سے لائی جائے؟
بوساق کے اُس پُل پر، جو سیلاب میں بہنے کے بعد پھر سے بنایا گیا ہے اورجس کی وجہ سے پانچ چھے لاکھ لوگوں کی آمد ورفت کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، کے اوپر چہل قدمی کرکے دونوں دریاؤں کے گٹھ جوڑ کے اور آر آنے اورپار جانے والوں کے نظارے دیکھنے کے قابل ہیں۔ ہم بھی اِن نظاروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ پل بن کر کھل بھی گیا۔ اِس کے لیے عوام کو بڑے پاپڑ بیلنا پڑے۔ بڑا پریشر ڈالنا پڑا۔ بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ سالہا سال خطرناک چیئر لفٹ استعمال کرتے رہے آپس میں ربط قائم رکھنے کے لیے۔ سچ ہے، حرکت میں برکت ہے۔
ما ہمیشہ پہ حرَکت کے برَکت موندلے
ستا اباسین بہ سمندر تہ ھم روان پریوزی
اِس پل پرملاکنڈ ضلع کا باب بند اور باجوڑ کا کھلتا ہے۔ ماشاء اللہ، باجوڑ میں دہشت گردی کی جنگ کے بعد بندوق غائب اورسکون غالب ہوگیا ہے۔ خدا کرے کہ یہاں معاشی خوشحالی بھی آ جائے اور پنجاب میں محنت مزدوری کرنے والے، جوتے پالش کرنے والے اور مکئی فروخت کرنے والے بندے اپنی وادیوں اور محلوں میں آکر پھر سے آباد ہو جائیں، آمین!
ڈاکٹر وارث خان سے تھانہ چوک میں اجازت لیتے ہیں۔ شام کی اذان کے ساتھ واپس بری کوٹ پہنچتے ہیں۔ شاہ صاحب کے ڈیرے پر طویل بحث و مباحثہ، گرما گرم اور ”ترسکون“ چکن پکوڑے،چپس اور ذائقہ دار چائے کی نشست پر یہ سفر اختتام پذیر ہوتا ہے اور جب گھر واپس پہنچتے ہیں، تو عین عشا کی اذانیں ہو رہی ہیں۔
اپنی کسی پرانی تحریر میں ”حالہ دئی“ بارے ذکر کیا تھا۔ یہ لفظ بلوچستان میں سنا تھا۔ مطلب ہے ”احوال دو۔“ ماضی میں لمبے سفر سے کوئی واپس آتا، تو گاؤں والے راتوں کو حجروں اور بیٹھکوں میں مل بیٹھ کر ”حالہ دئی“ کرتے۔ اس رسم کو ”حالہ دئی“ کہتے۔ سفر کرنے والا سفر میں جو کچھ دیکھتا، سنتا، کھاتا پیتااور ٹھہرتا، وہ سارا احوال اُسی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا۔ جب اُس کا بیان ختم ہو جاتا، تو گاؤں والے اُس کی غیر حاضری کے دوران میں رونما ہونے والے واقعات کا احوال کرتے ”ایکس چینج آف تھاٹس۔“ وہ پلیٹ فارم اب تو موجود نہیں، لیکن ہمارا ”حالہ دئی“ کا عمل جاری رہے گا۔
صدی سے مانگے گی اگلی صدی حسابِ گنہ
مرے سرشت کو لمحوں کے داغ دھونے دے
یہ غم مرا ہے، تو پھر غیر سے علاقہ کیا
مجھے ہی اپنی تمنا کا بار ڈھونے دے
ببول سبز ہے باندھے حصار ناز اجملؔ
مجھے بھی اپنی زمیں میں چنار بونے دے
آپس کی بات ہے، اِس بیگانگی اور بد امنی کے دور دورے میں گھومنے پھرنے کا عمل بڑے دِل گردے کا کام، نہیں؟ پھر اُسے دوستوں کے روبرو پیش کرنا اُس سے بھی بڑے دِل گردے کا کام نہیں؟معنی جو بھی لیے جائیں، پشتو کا ایک علاقائی سٹریٹ ٹپہ سنیں:
د ملاکنڈ د سر طوطی وے
پہ اُور ستی وے تہمتی نہ وے مئینہ

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں