امجدعلی سحابؔکالم

قوم نما ہڑبونگ

10 اپریل صبح 11 بجے معمول کے مطابق دفتر کے لیے روانہ ہوا۔ جیسے ہی ”گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول حاجی بابا“  پہنچا، تو بخد امجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ اس لیے کہ وہاں 200 کے قریب خواتین و حضرات اور بچوں کا ایک جم غفیر نظر آیا۔ اولاً تو مجھے کچھ سجھائی نہ دیا، ثانیاً خیال آیا کہ ایک عدد تصویر ہی اُتار دوں۔ موبائل فون سے دو تین تصاویر اُتارنے کے بعد مایوسانہ انداز میں دفتر کی راہ ناپنے لگا۔ ابھی دس بارہ قدم ہی آگے لیے ہوں گے کہ ایک چالیس پینتالیس سالہ شخص نے رُکنے کی خاطر آواز دی اور دوسرے ہی لمحے اپنا ایک سادہ سا فون تھماتے ہوئے کہا کہ ”میرے نمبر پر ایک پیغام موصول ہوا ہے، مجھے پڑھ کر سنادیں۔“ پیغام کا لبِ لباب کچھ یوں تھا کہ ”احساس پروگرام کے تحت ”ع“ کے نام 12 ہزار روپے مختص ہیں، شناختی کارڈ لے کر مخصوص سنٹر سے وصولی کرلیں۔“ پیغام سننا تھا کہ مذکورہ شخص نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”اب اس وبائی دور دورہ میں اور اس گھٹیا طریقہئ کار کے تحت گھر کی خواتین کو کیسے یہاں لایا جائے؟ اس سے تو بہتر ہے کہ بھوکے ہی رہیں!“ مَیں نے بھی کاندھے اچکاتے ہوئے ہاں میں ہاں ملائی کہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
دفتر آکر سب سے پہلے ”احساس پروگرام“ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ ایک لنک ملا جس میں یہ معلومات ہاتھ آئیں کہ
٭ اگر کوئی خود کو مستحق سمجھتا  ہے، تو شناختی کارڈ نمبر 8171 پر ایس ایم ایس کرے اور جانے کہ وہ مذکورہ امداد کا اہل ہے یا نہیں؟ اگر کوئی مستحق ہوگا، تو اس کو جوابی ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا اور یہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ اپنے علاقے کے کس مرکز پر جاکر نقد رقم حاصل کرسکتا ہے؟
٭ احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ مستحق خاندانوں کو 17 ہزار مقامات سے فی خاندان 12 ہزار روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ سینئر صحافی فیاض ظفر کے مطابق سوات میں 87 پوائنٹس پر 80 ہزار خواتین مستفید ہوں گی۔
٭اس حوالہ سے جانچ پڑتال محکمہئ نادرا کی مدد سے کی جائے گی۔
٭ امداد کے حصول کے لیے احساس پروگرام کی انتظامیہ کو 9 اپریل 2020ء تک 4 کروڑ 30 لاکھ 44 ہزار 60 ایس ایم ایس موصول ہوچکے تھے۔
٭ خاں صاب کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ ”ہم 144 ارب روپے نچلے طبقے تک تقسیم کردیں گے۔“
ان معلومات کی روشنی میں معمہ حل ہوا کہ جن 17 ہزار مقامات سے مستحق افراد میں پیسے تقسیم ہونے ہیں، انہیں میں سے ایک گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول حاجی بابا بھی ہے۔
اب دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ضلعی انتظامیہ سر توڑ کوششیں کر رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس عالمی وبا کا راستہ روکا جائے۔ جس کی خاطر ایک جگہ 5 لوگوں سے زیادہ کا اکھٹا ہونا بھی جرم قرار دیا گیا ہے، باجماعت نماز تک پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایسے میں درجنوں خواتین کا ایک جگہ ہجوم بنائے کھڑے رہنا کہاں کا انصاف ہے؟ اس پر طرہ یہ کہ ہر خاتون اپنے ساتھ ایک یا دو بچوں کو ساتھ لیے ہوئی ہے اور اگر بچے نہ ہوں، تو ماشاء اللہ گھر کے مرد حضرات تو ویسے بھی چھٹی پر ہیں۔ اب اگر ہر خاتون کے ساتھ ایک بچہ یا ایک مرد حضرت آیا ہو، تو صرف حاجی بابا سنٹر میں آج صبح 11 بجے تقریباً 200 افراد کا ہجوم کھڑا تھا۔ ایسے مَیں خاک یہ ہڑبونگ (جسے کچھ خوش فہم قوم سمجھتے ہیں) وبائی امراض کا مقابلہ کرے گی؟
قارئینِ کرام! آج کی نشست میں ہر گز خاں صاب سرکار پر تنقید مقصود نہیں۔ اُس بے چارے کی حیثیت تو اِس وبا دور میں کھل کر سامنے آچکی ہے۔ خاں صاب فرماتے ہیں ”لاک ڈاؤن“ قوم کے حق میں نہیں۔ اُدھر خاں صاب کے”بڑے“ حکم صادر فرماتے ہیں کہ ”لاک ڈاؤن ہوگا!“ اور فیصلے کہاں سے صادر ہوتے ہیں؟ یہ اب ایک ”اوپن سیکرٹ“ ہے۔
مگر کیا اتنی حد تک بھی خاں صاب کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اس وبائی دور دورہ میں وہ تھوڑا بہت ہوم ورک ہی کرلیتے۔ سماجی دوری یا ”سوشل ڈسٹنسنگ“ کا لحاظ رکھتے۔ مذکورہ امدادی رقم اولاً تحصیل کی سطح پر تقسیم کی جاتی، پھر محلہ، محلہ سے گلی، گلی سے کوچہ اور پھر مخصوص گھر۔ ایسا کرنا کون سی راکٹ سائنس ہے؟ تقریباً تمام سرکاری ملازمین فارغ بیٹھے ہیں۔ سول ڈیفنس، سکاوٹس، مختلف فلاحی تنظیمیں اس مد میں دست بستہ کھڑی ملیں گی۔ اگر انہیں انگیج کرلیا جاتا،تو میرا خیال ہے کہ اس وبائی دور میں ایک تو ہم کرونا وائرس سے اپنی قوم کو بچا لیتے۔ دوسری اہم بات سفید پوش خواتین  و حضرات کی عزت نفس بھی مجروح ہونے سے بچ جاتی۔
اب بھی وقت ہے۔ اگر اس بات کا نوٹس لیا جائے، تو ہم ایک بہت بڑے انسانی المیے سے بچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ ہماری ریاستی روش ہے کہ ہم قدرتی آفات کا راستہ روکنے والی نہیں بلکہ اس کو ”کیش“ کرنے والی قوم نما ہڑبونگ  ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں