فیاض ظفرکالم

2010ء کے سیلاب سے ہم نے کیا سیکھا؟

2010ء میں آنے والے سیلاب نے ملاکنڈ ڈویژن کا وہ حشر کیا تھا جو شورش کے دوران میں عسکریت پسندوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ بھاری جانی نقصان کے علاوہ اُس سیلاب نے پلوں، سڑکوں، گھروں حتی کہ کھیت کھلیان تک کو نہیں چھوڑا تھا۔ بڑی بے دردی سے دریائے سوات کی بے رحم لہریں سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ کالام سے چکدرہ تک اور جہاں جہاں سے دریائے سوات اور دریائے پنج کوڑہ گزرا وہاں وہاں سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔
مذکورہ سیلاب کی اصل وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دریا کنارے تجاوزات تھی۔ اُس وقت سیلاب کے بعد جب لوگوں نے دوبارہ تعمیرات کا آغاز کیا، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ دریا کے احاطہ کو چھوڑ دیتے، لیکن ہمارے لوگوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ایک بار پھر دریا کے اندر گھس کر تعمیرات کیں۔ یوں دریا کے پانی کے لیے جگہ مزید کم ہوگئی۔
اب جب دس سال بعد کالام، بحرین اور دیگر علاقوں کی سڑکیں خدا خدا کرکے تعمیر ہوئیں، تو 28 اگست 2010ء کو مدین کے علاقہ شاہ گرام میں سیلابی ریلے میں بچوں اور خواتین سمیت گیارہ افراد پانی میں بہہ کر جاں بحق ہوگئے۔ اس کے ساتھ 45 گھر پانی میں الگ سے بہہ گئے، اور بھاری مالی نقصان اس پر مستزاد۔
اگست میں جب ملاکنڈ ڈویژن کی انتظامیہ نے دریا کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا اور آغاز سوات کی وادیِ کالام سے کیا، تو کچھ امید سی بندھ گئی۔ انتظامیہ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کالام میں تمام تجاوزات کو گرا دیا گیا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
یکم ستمبر کو تیز بارش کے ساتھ سیلابی ریلوں نے ملاکنڈ ڈویژن میں ایک بار پھر تباہی مچادی۔ صرف سوات میں 6 افراد حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو پانی سے دور رہنے اوردریا کنارے آبادیاں خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ سیاحوں کو واپس جانے اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے اور تمام ہوٹل بند کرنے کا حکم دیا گیا، مگر خدا کی پناہ، اس کٹھن صورتحال میں بھی کچھ لوگ سیلابی ریلی میں بہنے والی لکڑیوں (سلیپر) کو پکڑتے رہے۔ اس دوران میں لکڑی پکڑنے والے چار افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے۔ یوں چار قیمتی انسان معمولی فائدہ کے لیے جان سے گئے، جن میں ایک 70سالہ بابا بھی شامل ہے۔
اس موقع پر دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ جب 61 ہزار کیوسک تک پہنچا، اور اونچے درجے کے سیلاب کا اعلان ہوا، تو ریلہ کئی رابطہ پلوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ جانی و مالی نقصان بھی ہوا، لیکن محکمہئ موسمیات نے اگلے روز پھر بارش کی پیشین گوئی کردی۔ اللہ کے کرم سے اگلے روز بارش تو ہوئی، لیکن اتنی تیز اور تباہ کن ثابت نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے دریائے سوات میں پانی کا اخراج کم ہوکر 30 ہزار کیوسک تک آگیا، اور ایک بڑے سیلاب کا خطرہ ٹل گیا۔
مذکورہ سیلابی ریلوں سے رابطہ پل اور کچھ لنک روڈ تو بہہ گئے ہیں، مگر مین شاہراہ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ اگلے دن بحرین کالام روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔
دوسری طرف شانگلہ میں اس طوفانی بارش اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے بڑی تباہی ہوئی۔ شانگلہ میں طوفانی بارش، سیلابی ریلو ں اور پہاڑی تودے گرنے سے بالائی علاقوں کی بیشتررابطہ سڑکیں بند ہوگئیں اور آمد و رفت کا نظام معطل ہوگیا۔
رانیال کے مقام پر سڑک سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے الپورئی، بشام کی اہم شاہراہ جو آگے ہزارہ ڈویژن اور شاہراہِ قراقرم پر گلگت اور چین سے ملتی ہے، بھی ٹریفک کے لیے بند ہوگئی۔
کروڑہ کے مقام پر پہاڑی تودہ گرنے سے گنجان آباد علاقہ چکیسر کی سڑک بھی بند ہوگئی۔ حادثات اور مکانات گرنے سے دو بچے جاں بحق ہوگئے۔ ندیوں پر بنائے گئے بیشتر پن بجلی گھر بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئے، جس کی وجہ سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔
2010ء کے سیلاب میں بھی ضلع شانگلہ کو بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جائے شکر ہے کہ اب دریا میں پانی کی سطح معمول پر آچکی ہے اور بڑے سیلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
انجمنِ تحفظِ ماحولیات کے ڈائریکٹر اکبر زیب اور سول سوسائٹی کے اہم ارکان کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں دو بار تباہ کن سیلاب کی اصل وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دریا کنارے تجاوزات ہیں۔ اگر حکومت نے جنگلات کی کٹائی اور دریا کنارے یا دریا کی حدود میں تجاوزات کو نہ روکا، تعمیر شدہ تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرکے ان کو نہیں گرایا اور پانی کا راستہ نہ کھولا، تو آنے والے وقتوں میں اس سے بد ترین سیلاب آنے کا قوی امکان ہے۔ اگر حکومت نے جنگلات کی کٹائی اور دریا کی حدود میں عمارتوں کی تعمیر پر پابندی لگائی، اور تعمیر کردہ تجاوزات کو گرایا، تو آنے والے وقت میں ہم سیلاب سے بچ پائیں گے اور ہماری نسل تازہ ہوا میں خطرے کے بغیر زندگی گزار سکے گی۔ سیاح بلا خوف ان علاقوں کا رُخ کریں گے جس سے یہاں کی معیشت بہتر اور لوگ خوشحال ہوجائیں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں