مجھ جیسا تصوراتی دنیا میں رہنے والا، خوابوں کی تعمیر کرنے والا، حساس اور خستہ حال شخصیت کا مالک ہر وقت کرب میں مبتلا جب ایک ایک غیر فطری سلوک سے گزرتا ہے، تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
قارئین! مَیں ایک چھوٹا سا کاروبار کرتا ہوں، جہاں میرے ساتھ میری ٹیم ہوتی ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ محنت کریں اور ایمان داری سے چلیں۔ ہمارے پاس ایک چوکی دار آیا، جو بہت ہی قابلِ رحم حالت میں ہوتا تھا۔ وہ پوری رات چوکی داری کرتا تھا۔ اُس کی تکلیف اور مالی بدحالی مجھے یوں احساس دِلاتی کہ پورے معاشرے کے ساتھ میں بھی اُس کا مجرم ہوں۔ مَیں کوشش کرتا کہ اس کو اپنے ہاتھ سے چائے پانی دوں وہ کبھی اگر دن کے وقت آفس آتا۔ ہمارے ہاں صفائی کرنے والا لڑکا کام چھوڑ گیا۔ چوکی دار نے کہا کہ میرا بیٹا ہے، میٹرک تک تعلیم ہے۔ اُس کو رکھ لیں، تو مجھ پر احسان ہوگا۔ مَیں نے جواباً ہاں کہنے میں دیر نہیں کی۔ سہ پہر کو وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لایا۔ وہ ایک خوب صورت اور وجیہہ نوجوان تھا۔ مَیں نے اُس کو کچھ پیسے دیے اور کہا، بیٹا! کچھ کپڑے اور جوتے خریدلو، بال بناؤ اور کل سے کام پر آؤ!
کل سے وہ آنا شروع ہوا۔ پہلی نظر میں، مَیں نے اس پہ بیٹھے کچھ لوگوں کے سامنے تبصرہ کیا، جس پر مجھے خود شرمندگی ہوئی، مگر مَیں کچھ الگ محسوس کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد باورچی خانے ہاتھ دھونے جا رہا تھا، تو وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ راستے ہی میں رُک گیا۔ لوٹ آیا۔ کچھ دیر بعد گیا، تو وہ پھر بھی مصروف تھا ۔ اگلے دن پھر اتفاق سے گیا، تو اندر سے فون پر اُس کی بات کرنے کی آواز آرہی تھی۔ مَیں لوٹ آیا اور کوئی آدھے گھنٹے بعد پھر گیا، تو وہ تب بھی اسی جذبے سے باتوں میں لگا ہوا تھا۔ مَیں سمجھ نہیں پایا کہ کیا باتیں ہورہی تھیں؟ لیکن کچھ نجی باتیں لگ رہی تھیں کہ وہ بولتے بولتے محتاط ہوکر ذرا خاموش ہوجاتا۔ کافی دیر بعد مَیں نے اُسے دیکھا اور پوچھا: ’’کس سے بات کر رہے تھے بیٹا!‘‘
بولا:’’ بہن سے بات ہو رہی تھی۔‘‘
مجھے حیرت ہوئی کہ بہن سے اتنی لمبی باتیں اور وہ بھی اتنے محتاط انداز میں ایک کونے میں؟ مَیں نے حیرت سے آفس میں ذکر کیا، لیکن ذاتی وجہ سمجھ کر زیادہ نہیں سوچا۔ وہ کھانا بناتا، تو اُس میں یا تو نمک ہرگز نہ ہوتی، یا بہت زیادہ ہوتی۔ مَیں نے ایک دن پوچھا: ’’ہفتے بھر سے ایسا کھانا کھا رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا، ’’دراصل مجھے کھانا چکھنے کی عادت نہیں۔‘‘ مَیں نے اسسٹنٹ منیجر ساجد کی ڈیوٹی لگائی کہ نمک آپ چیک کیا کریں۔ اُس نے کہا، ’’ٹھیک ہے سر!‘‘
مَیں کھانے کی میز پر ساجد سے پوچھا عجیب نہیں کہ نمک چیک نہ کرے کوئی اور کھانا بھی بنائے۔ اُس نے کہا وہ فون پر بات کرتا ہے۔ اُسے یاد نہیں رہتا۔ مَیں نے یہ نوٹ کیا۔ مَیں نے پوچھا، ’’کس سے بات کرتا ہے؟‘‘ کہنے لگا، ’’بند کر دیتا ہے جب کوئی جاتا ہے۔ پہلے کہتا تھا بہن ہے۔ پھر کہنے لگا منگیتر ہے۔ خدا جانے کون ہے؟ الگ تھلگ سا رہتا ہے۔‘‘
مَیں نے اُسے بلایا اور کہا، بیٹا! اپنے کام پر توجہ دو۔ اُس نے کہا، اجازت دیں، تو میری ماں اچھا کھانا پکاتی ہے۔ سودا لے کر مَیں گھر جایا کروں گا۔ میری ماں پکا دیا کرے گی۔ مَیں نے کہا، ٹھیک ہے!
جب اس کے والد صاحب نے کہا کہ گھر میں کھانا بنتا ہے، تو گھر والے بھی اُس میں کھا لیتے ہیں۔ مَیں نے جواباً کہا بہتر ہے!
پھر وہ لڑکا 11 بجے غائب ہوتا اور 2 بجے آفس آتا۔ آفس کے لیے یہ مناسب نہیں تھا، مگر اُس کے گھر والوں کو بھی ہمارے کھانے میں کچھ مل جاتا، اس لیے مَیں نے کچھ نہیں کہا۔
اس دوران میں کچھ دن سے لڑکے کَہ رہے تھے کہ اُن کے کیبنوں میں سے اُن کی ذاتی اشیا اور پیسے غائب ہوجاتے ہیں۔ سب کو حیرت ہوتی کہ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ سی سی ٹی وی کیمرے چیک ہوئے، تو پتا چلا کہ لڑکا صبح صبح صفائی کے لیے آتا ہے اور دارزوں کو کھولتا ہے۔ ہر روز کی ریکارڈنگ چیک کی۔ ہر روز لڑکے کا یہی معمول ریکارڈ ہوتا ہوا دیکھا۔ اُس کے والد صاحب کو بلایا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کو پولیس کے حوالے کر دیں۔ مَیں نے ذرا سختی سے بات کی، تو کہنے لگا کہ اس کا ایک لڑکی سے تعلق تھا۔ بس 25، 30 روپے لیے ہوں گے۔ باقی کچھ نہیں لیا۔
مَیں نے پولیس سٹیشن فون کیا۔ مجھے اس پر شروع دن سے عجیب سا شک تھا۔ تھانے میں اُس نے تین لڑکیوں اور تین لڑکوں کے نام لیے کہ یہ میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے کہا، ایف آئی آر کریں، مگر پولیس کو ایف آئی آر میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ کہنے لگے آف دی ریکارڈ رکھیں۔ ان سے ریکوری کرتے ہیں۔ مَیں نے بازار صدر صاحب عبد الرحیم صاحب سے بات کی۔ اُنھوں نے پولیس سے بات کی۔ فیاض ظفر نے ایس ایچ اُو سے بات کی۔ میرے آفس کا سارا عملہ آدھی رات تک پولیس اسٹیشن میں رہا۔ ایک ایک کرکے تین اور لڑکے پولیس نے تحویل میں لے لیے۔ اس دوران میں لڑکی کا فون آیا، جس نے پولیس والے کو گندی گالی دی کہ لڑکے سے بات کراؤ۔ تفتیشی افسر محظوظ ہوتا رہا۔
اگلے دن پھر پولیس نے آفس والوں کو بلایا۔ دن پھر نکل گیا۔ پھر اُس سے اگلے دن کچہری میں بلایا اور عجیب انصاف کرا دیا کہ چوروں اور میری ٹیم کے درمیان صلح کرا دی۔ صلح بھی اس طرح کرائی کہ چور کَہ رہا ہے کہ ایک لاکھ پانچ ہزار روپے چوری کیے ہیں۔ 20ہزار معاف، 13 ہزار اُس کی تنخواہ ہے، وہ منفی، 25 ہزار کا موبائل لے لو۔ 5 ہزار پولیس کا انعام، بقایا نقد لے لو۔ یہ ریکوری ہے!
میرے لوگ کافی دیر سے آئے۔ مَیں نے پوچھا کدھر تھے؟ کہنے لگے کہ اے سی صاحب کو حلفیہ بیان دے رہے تھے کہ چور پر کوئی اور دعوا نہیں۔ یہ تفصیل ہے۔
مَیں نے پوچھا موبائل لے لیا اس کا؟ کہنے لگے، نہیں! وہ پولیس کی تحویل میں ہے۔
کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ انصاف کی کون سی قسم ہے؟ پولیس سٹیشن بندہ بجھوایا، تو پولیس نے کہا، یہ موبائل تمھارا تو نہیں، یہ تو چور کا ہے۔ چور آئے گا، اُسی کو دیں گے۔
اب اُسے کون یہ سمجھائے کہ بھئی! یہ تو 2 5ہزار میں آپ نے ہمارے کھاتے میں ڈالا ہے۔
عجیب بات ہے کہ رحیم آباد پولیس اسٹیشن کو چور مع ثبوت حوالے کیے۔ اُنھوں نے تین دن چوروں کو رکھا، ریکوری کی، موبائل کی قیمت بھی ریکوری میں ڈال دی، اے سی کے پاس لکھت پڑھت ہوئی، موبائل فون پولیس سٹیشن نے رکھ لیا، میرے حصے میں ’’شاباش‘‘ آئی، چور گھر چلا گیا اور ہمارے تین قیمتی دن ضائع ہوئے۔ 13 ہزار پولیس نے کہا اُس چور کی تنخواہ ہے۔ 25 ہزار کا موبائل لے لیں، باقی کیش لے لیں۔ پانچ ہزار پولیس والوں نے انعام لیا۔ کچھ پولیس نے رعایت دے دی چور کو۔
اس حوالے سے رحیم آباد پولیس اسٹیشن فون کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ فون دنیا کا سب سے غیر مہذب شخص اُٹھائے گا ۔ رحیم آباد پولیس اسٹیشن کے فون اُٹھانے والے نے جواب دیا کہ جس کو موبائل پولیس اسٹیشن میں دیا ہے، اُس سے لے سکتے ہو تو لے لو! مَیں نے کہا، ڈی پی او صاحب سے بات کرلوں؟ اُس نے قہقہہ لگایا اور کہا، جس کو مرضی ہو بتا دو!
پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے گئے تھے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ چوروں کے ساتھ راضی نامہ کرنے کے لیے دباو ڈالا۔ پانچ ہزار روپے ہم سے نقد لیے، جو چوروں سے لیے ہوں گے معلومات نہیں۔ چور کہتا رہا کہ مَیں نے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے چوری کیے ہیں، پولیس نے رعایت کی۔ تین دن تک ہمارے لوگوں کو تھانے میں بٹائے رکھا اور آخر میں موبائل پولیس نے انعام کے طور پر رکھ لیا۔
قارئین! بہ خدا اس واقعے سے سمجھ میں آیا لوگ نظام سے باغی کیوں بنتے ہیں، معاشرے سے بدی ختم کیوں نہیں ہوتی، پولیس اور چوروں کا کیا رشتہ ہوتا ہے، ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوتی، پولیس کے اعلا حکام ایکشن کیوں نہیں لیتے؟
اب مَیں اُسی دن سے خود سے لڑ رہا ہوں۔ بار بار خود سے تکرار کر رہا ہوں۔ اگر رحیم آباد پولیس اسٹیشن ایف آئی آر درج نہیں کرتا، صدر عبد الرحیم کی درخواست نہیں مانتا، فیاض ظفر کو رَد کرتا ہے، تو سارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، صحافی، وکیل اور سول سوسائٹی انصاف کا لفظ دفن کر دیں۔ اگر مجھ سے رشوت لیتے ہیں، پورے چوروں کے نیٹ ورک کو احترام سے چھوڑ دیتے ہیں، تین معلوم شریک خواتین اور چار لڑکوں کے خلاف صفر کارروائی ہوتی ہے، جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، چور اقرار بھی کر تے ہیں، اس کے باوجود ان کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس اسٹیشن کا ٹیلی فون آپریٹر باوجود تعارف کیے بد اخلاقی کرتا ہے۔ ڈی پی اُو کے نام پر قہقہہ لگاتا ہے۔ کیا ایسے شہر میں کسی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟
قارئین! ایف آئی آر کسی بھی شہری کا حق ہے۔ ڈی پی اُو صاحب کو کبھی مصروفیت سے فراغت ہو اور ڈی سی صاحب کی تھوڑی سی دل چسپی ہو اور پولیس کے لیے ٹائم ملے، تو ذرا معلومات کرلیں۔ رحیم آباد پولیس اسٹیشن کس کے کنٹرول میں آتا ہے، کون سا قانون چلتا ہے وہاں؟
پولیس کا مورال کے بلند کرنے کے لیے نعرے لگانے والے ہم جیسے لوگ، پولیس کے قصیدے پڑھنے والے ہمارے جیسے ناسمجھ جب پولیس کے پاس فریاد کرنے جاتے ہیں، تو پولیس اُن کی عزت، آبرو ، خودی اور جذبہ سب کچھ چھین لیتی ہے۔
کس بے وقوف کا خیال ہے کہ ’’اولس و پولس یو دی!‘‘ پولیس ایک امتحان ہے، جس سے مولا ہر کسی کو محفوظ رکھے۔ میرا کاروبار تین دن بند رہا۔ میرے لوگ آدھی رات تک پولیس کے پاس بیٹھے رہے۔ پولیس اہل کار فون پر چور گروپ کا حصہ اُن لڑکیوں سے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ ہم سے پہلے چور احترام کے ساتھ اپنے گھر پہنچ گئے۔ کیا ایسے میں خیبر پختونخوا ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کا صدر، پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کا پریس سیکرٹری اور پورے سوات کا صدر کسی کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ پولیس کے پاس دادرسی کے لیے جاؤ ؟ کیا اب بہ حیثیت ایک کالم نگار، بہ حیثیت ایک صاحبِ قلم میں پولیس کے حق میں کچھ لکھنے کے قابل رہا ہوں، کیا بہ حیثیت انسانی حقوق کے تحفظ کے کارکن میں اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہوں، کیا سول سوسائٹی کے ایک ممبر کے طور پر تھانہ کلچر پر خاموش رہوں، کیا کرپشن کے خلاف دن رات بولنے والا پانچ ہزار روپے رشوت دے کر اپنے جائز کام کے لیے سو پائے گا، کیا انصاف کے لیے لڑنے والا پولیس نظام کی موجودگی میں انصاف کی توقع کرسکے گا، کیا دہشت گردوں کو برا کہنے والا اب کسی پولیس اسٹیشن پر حملے کے بعد یہ نہیں سوچے گا کہ شاید پولیس کی نفرت اتنی شدید تھی کہ حملہ کرنے والا دہشت گرد بن بیٹھا، کیا کسی پولیس والے کو دیکھ کر مجھے اپنے ساتھ ہونے والا سلوک یاد نہیں آئے گا، کل کوئی گروہ شہر میں سرگرم ہوگا، تو کیا مَیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوں گا کہ یہ پولیس کے پالتو گروہ ہیں، جن کے خلاف پولیس کارروائی کیا ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی؟
سوات کے صاحبِ ادراک لوگ مجھے مطمئن کریں، ڈی آئی جی اور ڈی پی اُو مجھے مطمئن کریں، مَیں تو مطمئن نہیں ہورہا!