کچھ باتیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ بہت خوش نما ہوتی ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام کی نبض کے مطابق بات ہو رہی ہوتی ہے۔ دلیل سے دلیل جھڑتی ہے، ایک مقبول بیانیہ بنتا ہے، اس بیانیے کی مخالفت میں دہشت ناک اور خوف ناک داستانیں بنتی ہیں اور ہر زبان پر چڑھ جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ انگریز کے ڈپٹی کمشنر جب کسی نئے علاقے میں تعینات ہوتے، تو وہ اس علاقے کا محل وقوع بیان کرتے۔ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کے پڑوسیوں کا ذکر کرتے اُن کے بیرونی تعلقات کا ذکر کرتے ۔ جس علاقے میں تعینات ہوتے، وہاں موجود قوموں اور گرہوں کی بابت لکھتے۔ زمین کے بندوبست کے بارے میں لکھتے، درج کرتے۔ کون سی قوم کتنی بارانی، نہری، آب پاشی، میدانی، دریائی اور پہاڑی زمین رکھتی ہے، اس میں کس کے حصے میں کتنی زمین آتی ہے؟
اس طرح دریا اور ندی نالوں کا حساب کیا ہے، کتنی زمین دریا اور ندی نالے کی حدود میں ہے؟ اس سے ایک کتاب بنتی، وہ ایک کتاب اسی آفس میں رہتی اور باقی تاجِ برطانیہ کے مختلف متعلقہ دفاتر میں تقسیم ہوتی۔ اس سے ہر آنے والے ڈپٹی کمشنر کو فوائد ہوتے، بندوست کرنے میں آسانی ہوتی، علاقے کے طور اطوار سمجھنے اور روایات اور رسوم کا پتا چلتا ۔
کیوں کہ ڈپٹی کمشنر لینڈ ریونیو آفیسر ہوتا تھا، ہوتا تو اب بھی ہے…… مگر ہر ڈپٹی کمشنر 11 بجے دفتر آتا ہے، اور پھر کسی میٹنگ میں مصروف ہوجاتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے یہی معمول ہوتا ہے۔ میٹنگ کے مینٹس کیا ہوتے ہیں؟ اللہ جانے۔ بہترین ہوٹل سے لنچ آتا ہے اور یوں شام ہو جاتی ہے۔
یہی کچھ اسسٹنٹ کمشنر صاحب بھی کرتے ہیں۔
قارئین! سوات میں ماضیِ قریب میں تین سیلاب آئے۔ 2010ء کے سیلاب نے تباہی مچا کر رکھ دی۔ پھر 2012ء اور 2022ء میں بھی سیلاب آیا۔ دریائے سوات سیکڑوں ایکڑ زمین مٹلتان سے لنڈاکی تک سوات کی حدود میں دریا کے دونوں جانب بہا کر لے گیا۔ یہ کس کی زمین تھی، کس کے نام تھی، آبائی زمین تھی یا خریدیں گئی تھی؟ کیا اس حوالے سے حکومت کو کچھ معلوم ہے؟ کیا مذکورہ زمین کو بچانے کی کوئی تدابیر ہوئی تھیں، کیا متاثرین کو کوئی معاوضے ادا کیے گئے تھے؟ کیا زمین کو دریا برد ہونے سے بچانے میں ناکام ہونے والے اشخاص اور اداروں کو کوئی سزا دی گئی تھی؟ کیا اس حوالے سے کوئی میٹنگ ہوئی تھی؟
یا پھر سب کچھ ’’عذابِ الٰہی‘‘ سمجھ کر بھلا دیا گیا……!
چلیں، سوچتے ہیں کہ یہ زمین دریا کا حصہ نہیں تھی اور ایک شخص اس میں کاشت کاری کر رہا تھا، یا ماہی پروری کر رہا تھا۔ حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اَب اُس کی زمین بہہ گئی ہے۔ اُس کے پاس ریت، بجری، پتھر رہ گئے ہیں۔ اب وہ یہی بیچنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ تو اب حکومت کو اعتراض ہے کہ دریا کی خوب صورتی تباہ ہو رہی ہے۔ دریا اُس شخص کے کھیت یا زمین میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے آیا ہے۔ اب حکومت کا انصاف دیکھیں۔
تعمیراتی کاموں کے لیے ریت، بجری، کرش چاہیے اور ذریعہ دریا ہے۔ اگر مالک اپنی زمین سے فصل کی جگہ انھیں نکالے، تو وہ مجرم ہے……!
حکومت نے ٹینڈر کیے۔ اب زمین کا مالک بھی پیسے ادا کرے گا اور ریت، بجری، کرش خریدنے والا بھی!
عجیب انصاف ہے کہ ریت، بجری اور کرش کے خلاف ایک بیانیہ بنایا گیا۔ چھاپے پڑے۔ زمین کا مالک بڑا جرم قرار پایا۔ کہا گیا کہ ’’دریا کی خوب صورتی تباہ ہو رہی ہے!‘‘
یوں اختیارات اور وسائل کچھ ہاتھوں میں دے دیے گئے اور اب دریا کی خوب صورتی تباہ نہیں ہو رہی!
ضروری ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب مٹلتان سے لے کر لنڈاکی تک دریا کی حدود اور لوگوں کی زمین دریا برد ہونے کی تفصیلات سے خود کو بھی آگاہ کریں اور قوم کو بھی بتائیں۔مستقبل میں ایسے نقصان کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات سے صوبائی اور مرکزی حکومت کو آگاہ کریں۔
ایک زمانے سے رائج کرش، ریت اور بجری کے بیانیے کو بند کر دیں۔
ورنہ پھر تو وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اچھے تھے، جو علی الصباح آفس میں بیٹھ جاتے اور رات کو اٹھتے، یا پھر دورے کرتے اور پٹواری یا گردآور کی رپورٹ کے محتاج نہ ہوتے۔
انگریز ڈپٹی کمشنر تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے، تبھی تاجِ برطانیہ کا سورج غروب نہ ہوتا تھا۔
ایک ہم ہیں کہ ہمارا سورج اول تو طلوع نہیں ہوتا، اور اگر دن چڑھے طلوع ہو بھی جائے، تو دھند کی لپیٹ میں رہتا ہے، یا بادلوں کی اوٹ میں رہتا ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس