ساجد علی ابوتلتانکالم

پن چکی کی تاریخی اہمیت

آسیا (چکی)، آسیائے آب (پا نی کی چکی) آسیاب (پن چکی) اور آسیا بان (چکی چلانے والا) فارسی زبان کے یہ نام اُس مشین سے متعلق ہیں جو پانی کی مدد سے چلتی ہے۔ پرانے طرز کی یہ مشین انگریزی میں’’واٹر مِل‘‘، ہندی میں ’’پن چکی‘‘ اور پشتو میں ’’ژرندہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ہمارے علا قے میں جہاں جہاں نہر یاندی کا پانی ایک ڈھلانی سطح سے گر تا ہے، وہاں پتھر، لکڑی اور گارے کی دو منزلہ کو ٹھڑی ضرور ہو تی ہے، جس میں نہر اور پا نی کے حجم کے مطابق دو، تین یا پا نچ چکیاں ہوتی ہیں۔ پچھواڑے میں نہر کی بائیںیا دائیں طرف پن چور خانہ ہو تا ہے جو پن چکی بند ہونے کی صورت میں کھلارہتا ہے، جس میں پن چکی کا مُڑاہوا پانی رُخ بدل کر دوسری نالی میں گر جاتا ہے۔ اُس وقت پن چوروں سے چکیوں کے ترناؤ بند کیے جا تے ہیں۔ جب چکی کو چلا نا ہو، تو پن چورے اٹھانا پڑتے ہیں اور پا نی خود بخود ناب دان (پشتو میں ناوہ ) میں گر جا تا ہے۔ جو چرخ کے چکر گھومنے کے بعد اگواڑے میں سفید بُلبلے بناتا ہوا آگے چلا جا تا ہے۔ کوٹھڑی کے اندر غلے اور آٹے کی بوریوں کا انبار لگا ہو تا ہے۔ ہر شخص کو اپنی باری کا انتطار کر نا پڑتا ہے۔ باری آنے پر بوری کا غلہ پیمانہ کیا جا تا ہے۔ بیسواں حصہ ایک الگ خانے میں رکھتا ہے، پیمانہ ایک جام نما برتن (ووگے) اور پھکنی کی طرح گول ڈبیاں (چونگ) سے کیا جا تا ہے۔
اس مشنری کا ایک ہی ما ہر چکی راہا ’’آہن گر‘‘ ہو تا ہے، جس کے ذمہ چکی کے تکنیکی کاموں کے علاوہ نہر پر بند باند ھنا،چکی کے ر گڑے ہو ئے پا ٹوں کی گھسی پٹی سطح کو ہتھوڑوں سے کھردرا کرنا اور چکی کا ایک پل خر ید کر لگانا وغیرہ ہو تے ہیں۔ پن چکی کی رکھوالی کر نے کے لیے ایک دہقان بھی ہو تا ہے، جو چکی کی ’’مزد‘‘ گھر میں جمع کر تا ہے، جوپن چکی میں ضر ورت کے وقت مختلف کام کر تا ہے اور کبھی کبھار فی بوری کے حساب سے اجرت لے کر دوسروں کا غلہ پیستا ہے۔مزد کے جمع شدہ غلے کا پا نچواں حصہ اس کو ملتا ہے۔ باقی غلہ دو برابر حصوں میں پن چکی کے مالک اور آہن گر میں تقسیم ہوتا ہے۔
پن چکی میں گندم، جو اور چاول، مکئی یا گندم ملاکر (پشتو میں ’’وڑئی‘‘) پیسا جاتا ہے ۔اس طرح مختلف غلوں سے جانوروں کے لیے خوراک بھی یہاں تیار کی جاتی ہے۔ خالص مکئی کے لیے البتہ گرم پن چکی ہوتی ہے، جو عام پن چکی کے مقابلے میں زیا دہ پا نی، پلوں کی مو ٹا ئی اور نا وے کی لمبائی کے حساب سے مختلف ہو تی ہے۔ علاوہ ازیں دونوں پاٹوں کے نیچے کھوکھلی لکڑی جو روئی سے بھری ہو تی ہے، لگائی جا تی ہے۔ اس طرح دونوں پلوں کے بیچ میں خلا بھی رکھا جا تا ہے، جس میں گرمائش سے گیس پیدا ہو تی ہے اور مکئی کے دانے پیسنے سے پہلے پک جا تے ہیں۔ اس عمل سے آٹے کا مزہ دوبالا ہو جا تاہے۔
زرعی معاشرے میں پن چکی کو بہت اہمیت حا صل ہے۔ پرانی زراعت کی یہ اہم ٹیکنا لوجی ریاستِ سوات کی زرخیزی میں تقریباً ہر پہاڑی ندی اور میدانی نہر پر قائم تھی۔کہتے ہیں کہ پرانے سواتی اس فن میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے، جس کا ثبوت یقیناًاُن خاندانی آہن گروں کی مہارت ہے، جن کی اکثریت پرانے سواتی ہیں۔
پہاڑی پن چکیاں اکثر موسمی ہو تی ہیں جب کہ نہری پن چکیاں پورا سال چلتی ہیں۔ اگلے وقتوں میں بعض پن چکیوں کو پیداواری صلاحیت کی بنا پر بہت اہمیت حاصل ہو تی تھی۔ محمد نذیر اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ سر گند خان کی پن چکیوں سے روزانہ دو من ’’مزد‘‘ حا صل کی جاتی تھی۔ تب ہی تو پن چکی ایک روپے دفتری زمین کے برابر تصور کی جاتی تھی۔اس اہمیت کے پیش نظر بعض آہن گر پٹے پر پن چکی ما لکوں سے حا صل کر تے تھے، یا وہ کسی مقام پر سخت محنت کے بعد چکی بناتے تھے جس کے عوض میں وہ لمبے عرصے کے لیے متعلقہ پن چکی کی آمدنی لیتے تھے۔
حضر ت منیر عرف جا نان کا اس حوالہ سے کہنا ہے: ’’ ہم نے چار پن چکیاں تعمیر کیں اور چالیس سال استعمال کر نے کے بعد دو خریدیں اور دو رہن رکھیں۔‘‘
عبدالرزاق عرف بازدا کہتے ہیں:’’ایک قسم کی پن چکی پلو (محلہ یا برادری) کی ملکیت ہو تی تھی۔‘‘ کتاب سوات سما جی جغرافیہ سے اس بات کی تصدیق ہو تی ہے۔ مثلاً: ’’پن چکی کی ایک قسم ’’ٹل‘‘ کی مشترکہ پن چکی تھی جو ایک مخصوص کمیونٹی کی ملکیت ہو تی تھی، جہاں پن چکی چلانے والا گھر گھر سے غلہ اِکھٹا کر تا اور اُس کی خد مت کے عوض دیا جا تا ۔‘‘
کوچی تقسیم اور ما بعد کے زما نے میں کسی گا ؤں کی اہمیت دیگرکئی خوابیوں کے ساتھ ساتھ وہا ں موجود پن چکیوں کی سہولت پر منحصر تھی جیسے دریا کے کنا رے والے گاؤں، اس حوالے سے درشخیلہ اس کا گڑھ تھا جہا ں فقط دریا کے کنا رے پچاس سے زیا دہ پن چکیاں تھیں۔ میاں جلندر، شمعون، عبدالودود، عبدالاحد، فضل رحیم، سید محمود، شاہ جان، جہا ن زیب، حسام الدین، زیا ت گل، سید خان، محمد عالم خان، عبد الحکیم عرف سور حکیم،سینپورے میاگان، عبدالجبار وغیرہ پن چکیوں کے مالک تھے۔ جب کہ انظر گل ، شیرین، تانئی صا حب،نصیب جان ، انظر ملنگ، وزیر گل، محمد گل وغیرہ آہن گر تھے۔ دہقانوں کی تعداد بھی کسی حوالے سے کم نہ تھی۔ دیہا تی زندگی میں اس مؤثر ثقافتی جز کا زبان و ادب پر اثر انداز ہو نا لازم تھا۔اس سے متعلق پشتو زبان میں کہاوتیں مشہور ہیں مثلاً ’’ژرندہ کہ دپلار دہ خو پہ وار دہ‘‘، ’’سہ ژرندہ پسہ اور سہ دانی لمدے وے‘‘، ’’چی سہ رنگ ژرندہ وی اغہ رنگ ئے دوڑہ وی‘‘ وغیرہ۔
پن چکی کی اِفادیت میں کمی آج کل کے بدلے ہو ئے حالات اور جدید سہولیا ت کی وجہ سے آئی۔ رہی سہی کسر سیلاب نے پو ری کی۔اس حوالہ سے جا نا ن کہتے ہیں: ’’ مجھے یاد ہے 35 پن چکیاں ایک سیلاب کی نذر ہو ئیں۔‘‘ جب کہ تقریباً 20 کی تباہی کا نظارہ تو راقم بچشم خود کر چکا ہے۔اب تو پورے گاؤں (درشخیلہ) میں چھے پن چکیاں رہ گئی ہیں۔یہ بھی اگر سیلابوں سے بچ جائیں، تو زما نے کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر پا ئیں گی۔ اس لیے چند سال کے مہمان معلوم ہو تی ہیں۔ کیوں کہ لوگ تیار آٹا کھا نے کے عادی ہو چکے ہیں۔ان کے پا س اتنا وقت کہاں ہے؟ لیکن پن چکی کی تاریخی اہمیت سے آج بھی انکار ممکن نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں