ساجد علی ابوتلتانکالم

آہ، محمد زبیر استاد صاحب بھی گزر گئے

دَ دنیا وار داسی تیریگی
لکہ دَ تورو غرونو باد پہ خکتہ زینہ
محمد زبیر استاد صاحب عجیب شخصیت تھے۔ دل کا عارضہ لاحق تھا، پھر بھی ہنستے ہنساتے اور خوش رہتے۔ بلند قامت، اونچی آواز اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہر چھوٹے بڑے کے دل میں بس جاتے۔ اتوار کے شام احرارالحکیم کے کلینک میں گپیں مار رہے تھے۔ اس کے بعد شیر نواب استاد کے ساتھ اچھے بھلے تل حیات خان کی گاڑی میں دارمئی روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی نماز پڑھی۔ ایک بار پھر وضو تازہ کیا، ابھی ایک موزہ پہنا تھا، دوسرا پہن رہے تھے کہ دل کا دورہ اجل کی صورت میں نمودار ہوا۔ ہر چند تل حیات خان گاڑی تیز چلا رہے تھے، لیکن اتنی سرعت سے آپ عالمِ بالا کی طرف دوڑ رہے تھے۔ اسی اثنا میں استا د صاحب کی آنکھیں گویا شیر نواب بابو سے کہہ رہی تھیں:
سورت یاسین راتہ شروع کڑئی
پا ما خولے د زنکدن راغلی دینہ
پھر اچانک منھ ایسے موڑگئے کہ واپسی کے سارے دروازے بند ہوئے۔ گھر میں صفِ ماتم بچھ گیا۔ سو گواروں نے زارو قطار رو کر اپنا جی ہلکان کر دیا۔ مرحوم کے بے روح جسم کا آخری دیدار کرنے ان کے بھائی اور بیٹی کو آنا تھا، اس لیے جنازہ اگلے دن مقرر کیا گیا۔ اُدھر ان کی لاش کو شاید جلدی تھی۔
پہ کفانہ می تلوار وکڑئی
نا وختہ کیگی زہ ناشنا وطن لہ زمہ
سات اکتوبر بروز پیر ہزاروں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ دوست احباب اور شاگردوں کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ آخر استاد صاحب پس ماندگان کو دائمی داغِ مفارقت دے کر دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
قارئین! مرحوم استاد صاحب بوجوہ ماں اور ایک بھائی کے ساتھ زمانہئ طفولیت میں گاشکوڑ سے درشخیلہ آئے تھے۔ ننھیال نے چھت فراہم کی، لیکن وہ اپنی کمزوری کے باعث ان کی کسمپرسی ختم نہ کرسکے۔ جبھی تو ان کا بچپن نہایت خستہ حال گزرا۔ پھر ایک حادثے میں ان کا ہاتھ کٹ گیا۔ انتہائی پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہمارے خاندان والوں کو ان کی ساری باتیں یاد ہیں۔ میر بڑا بھائی ڈاکٹر محمد جلیل تو ان کا لنگوٹیا یار تھا۔ سب ان کی محنت کی گواہی دیتے ہیں۔ جہاں تک میری یادداشت ہیں، استاد صاحب جوان تھے۔ پرائمری سکول میں معلم تھے اور ہائی سکول کے پاس ایک گھر تعمیر کر چکے تھے۔ ایک چھوٹا سا خاندان رکھتے تھے۔ جب ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے، تو ہر بچے کی زبان پر استاد صاحب کا نام تھا۔ قابل طلبہ حسرت لیے ان کی کلاس میں بیٹھنے کی تمنا کرتے۔ جب کہ نالائق طلبہ کو ان کا سکو ل آنا بھی ناگوار لگتا۔ ان کا بس چلتا، تو زیارت میں جھاڑو پھیر کر منتیں مانگتے، اے کاش! استا د صاحب ایک مہینے کے لیے سکول نہ آئیں۔
استاد صاحب حدر درجہ با رعب انسان تھے۔ ہمیں ٹیوشن پڑھاتے ہوئے ہماری نظر ہر وقت ان کے ہاتھ پر رہتی کہ کب کسی سرزنش پر ہماری گوشمالی ہوتی ہے۔ حالاں کہ آپ انتہائی پیار سے سکھا تے تھے۔ محنت کے اس قدر عادی تھے کہ روز سکول جاتے۔ اک آدھ جگہ ٹیوشن سنٹر جاتے اور ہوم ٹیوشن پڑھاتے۔ ہمیں تعجب تھا کہ ایک بندہ ہر کلاس کے مختلف سلیبس کیسے پڑھاتا ہے؟
قارئین، مَیں بچپن سے ریاضی میں کمزور ہوں۔ دسویں جماعت میں ایک ٹیوٹر سے ریاضی سیکھنے کی درخواست کی۔ وہ بولا، آپ کے گاؤں میں اچھا خاصا استاد موجو د ہے۔ مَیں بھی ان کا شاگرد ہوں۔ یقینا آپ ہر شاگرد کے لیے باعثِ فخر تھے، لیکن آپ خود بھی باکمال شاگردوں کا نام فخر سے لیتے تھے۔ ہمیں ہمیشہ حسرت رہتی کہ اے کاش! استاد صاحب کہیں ہمار انام بھی لے دیں۔ مَیں اور میرا بھائی رشید خان ٹیوشن پڑھنے کے لیے عشا کے وقت ان کے گھر جاتے۔ استاد صاحب ہر وقت ان کو مخاطب کرتے۔ کوئی کام ہوتا، تو بڑا ہونے کے ناتے انہیں کہتے، اور مجھے کتاب پر توجہ دینے کی ہدایت فرماتے۔ پھر ایک وقت آیا کہ آپ اپنے نواسے شفیع اللہ کو ”ابدالی کالج“ میں داخلہ دلانے کالج پہنچے۔ داخلے کا اکام ختم ہو چکا تھا، لیکن اب انہیں مجھ کو دیکھنا مقصود تھا۔ پرنسپل صاحب نے مجھے دفتر بلایا۔ آپ نے مجھے دیکھا، تو بڑی شفقت سے پیش آئے۔ پرنسپل صاحب کو فخریہ انداز میں بتایا: ”یہ میرا شاگرد ہے۔“ مَیں شرمانے کے ساتھ ساتھ جذباتی سا ہونے لگا۔ بیٹھ جانے کا حکم ملا، پر کیسے بیٹھتا! میرے بیٹھنے کی جگہ تو ان کے پیروں میں تھی۔
استا د صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ شین باغ پبلک سکول کوزہ درشخیلہ کے پرنسپل رہے۔ پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تعلیمی سرگرمیوں سے الگ ہوگئے۔ دریں اثنا ان کی شریک حیات کوچ کرگئیں۔ استاد صاحب کو ایک کے بعد ایک تجربہ ہوتا گیا۔ الیکشن میں جب بالکل فرنٹ پر آئے، تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ کیوں کہ آپ فرمایا کرتے تھے: ”ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ سیاست ہمیں سوٹ نہیں کرتی۔“ اس کے بعد تبلیغی جماعت سے اس قدر رغبت رہی کہ مرتے دم تک اسی سے وابستہ رہے۔ متنوع خوبیوں کے مالک ہشاش بشاش محمد زبیر استاد نے ہر چھوٹے بڑے کو بس پیار ہی دیا۔ دوستوں کی طرح بچوں سے پیار کرتے۔ اپنی اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ جب لوگ ان سے اصرار کرتے، تو فرماتے کہ شادی تو ایک بار ہی ہوتی ہے۔ مَیں اپنے بیٹوں کا پیار بانٹنا نہیں چاہتا۔
آپ دوست احباب کے لیے گڑ کی ڈلی سے کم نہ تھے۔ نوررحمان ان کے حوالہ سے کہتے ہیں: استاد صاحب معاملہ فہم تھے۔ وعدے کے پابند تھے۔ دل کی بات زبان پر لاتے تھے۔ وقت پر حساب بے باق کرتے تھے۔ دوسروں کا مقروض رہنا انہیں گوارا نہ تھا۔ شیر نواب بابو فرماتے ہیں: استا د صاحب جیسا بہترین دوست اور اپنی اولاد کا شفیق باپ مَیں نے کہیں نہیں دیکھا۔ مَیں نے پوری زندگی ان کے منھ سے جھوٹی بات نہیں سنی۔
تل حیات خان نے ہمیشہ ان کو بڑا بھائی مانا ہے۔ میاں ظاہر شاہ کی حالت ایسی نہ تھی کہ میں ان سے استا د کے بارے میں پوچھ لیتا۔ غرض یہ کہ ہر محلہ دار، اساتذہ کرام، شاگرداور دوست ان کے پیار بہت یا د کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے صاحب زادوں حسین، جمال، افتخار، امجد اور اعجاز کو صبر وجمیل عطا فرمائے، آمین
عاقبت منزل ماوادیئ خموشاں است
حالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں