احمد سعید کالم

اہلیت سے محروم ناکام ٹیم

نجی شعبہ میں جب کوئی کاروبار ی شخص کوئی پراجیکٹ شروع کرتا ہے، تو سب سے پہلے اس کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ لیتا ہے، مشورے کرتا ہے، سروے کرتا ہے، غور و فکر کرتا ہے۔ جب پورے طور پر مطمئن ہو جاتا ہے، تو دوسرے مرحلے میں کامیابی کے لیے ہر لحاظ سے اہل و باصلاحیت ٹیم کا انتخاب کرتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ سے لے کر مارکیٹنگ اور پروڈکشن منیجر سے لے کر سیکشن انچارج تک، اکاونٹینٹ سے لے کر سیکورٹی عملے تک ایک ایک فرد کو نہایت احتیاط اور دیکھ بھال کرکے مقرر کرتا ہے، ٹیسٹ لیتا ہے، انٹرویو میں سامنے بٹھا کر ذہن وفکر اور شخصیت کا جائزہ لیتا ہے۔ پروفیشنل تجربے اور فنی تعلیم کی ڈگریوں اور سندات کا بغور جائزہ لیتا ہے۔ ان تمام مراحل کے بعد ان کے ساتھ شرائط و ضوابط طے کرتا ہے۔ ان کو ان کی ذمہ داریاں اور فرائض بتاتا ہے اور تقرر کے بعد بھی ان کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے۔ وقفے وقفے سے ان کی تربیت اور ٹرینگ کے لیے انتظامات کرتا ہے۔ کارکردگی کی نتائج پر کڑی نظر رکھتا ہے اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
عمران خان نے بھی ایک معیاری نظم و نسق اور خدمات کے لحاظ سے ایک مثالی کینسر ہسپتال بنایا، جو اپنی خدمات اور کارکردگی کے لحاظ سے نہایت کامیاب ہے۔ پاکستانی غریب اور مال دار عوام کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے بھی عمران خان نے اس فیلڈ سے متعلق بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کا تعاون حاصل کیا ہوگا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قابل اور با صلاحیت پروفیشنل افراد کو تلاش کیا ہوگا۔ ان کے مشوروں اور رہنمائی سے قواعد و ضوابط بنائے ہوں گے، جس کا نتیجہ ہے کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بارے میں آج تک عمران خان کے کسی شدید مخالف نے بھی کسی غلطی، کوتاہی اور عدم کارکردگی کی شکایت نہیں کی۔ اس لیے کہ یہ ایک عام تسلیم شدہ اصول ہے کہ ایک اَن پڑھ، تعلیم سے بے بہرہ اور عام ذہن و فکر کے مالک سیدھے سادھے کسان کو بھی یہ حقیقت معلوم ہے کہ اگر زمین کو ہم وار نہیں کیا، اس میں کھا د نہیں ڈالی، بروقت پانی نہیں دیا، وتر کے مطابق صالح اور معیاری بیج نہیں ڈالا اور پھر پورے دورانئے میں دیکھ بھال اور حفاظت نہیں کی، تو پھر فصل حاصل نہیں ہوگی۔ لیکن کیا یہ درجہ بالا مثالیں ملک و قوم، حکومت و سلطنت اور سیاست و امورِ مملکت چلانے پر صادق نہیں آتیں؟ کیا ایک وسیع و عریض رقبے، مختلف جغرافیائی خطوں پر مشتمل ملک کے مسائل و مشکلات کے لیے اسی طرح کی کد و کاوش کی ضرورت نہیں؟ کیا بائیس کروڑ عوام پر مشتمل اور گوناگوں مشکلات و مسائل سے دوچار ملک کے لیے اہل، با صلاحیت اور مخلص ٹیم کی ضرورت نہیں؟ کیا چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے، عالمی طاغوتی طاقتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے شکار ملک کے لیے بہترین پلاننگ اور اعلیٰ درجے کے حفاظنی اقدامات کی ضرورت نہیں؟ عالمی کپ کے فاتح اور شوکت خانم ہسپتال کے کامیاب منصوبے کے خالق کو پاکستان کی سیاسی پیچیدگیوں، معاشی مسائل، خارجہ امور کی نزاکتوں اور داخلی مسائل کا ادراک نہیں تھا؟ اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے حصول کے لیے جان توڑ کوششوں کے دوران میں آپ کی تقریروں سے تو یہ اندازہ ہوتا تھا کہ آپ کو اس ملک کے ایک ایک مسئلے کا پتا ہے اور آپ کے پاس اس ملک کے ایک ایک مسئلے کا حل موجود ہے۔کیا آپ نے خود یہ نہیں کہا تھا کہ میں ایک مخلص، امانت دار اور با صلاحیت ٹیم تشکیل دوں گا۔ میری پارٹی میں لوٹوں کے لیے گنجائش نہیں ہوگی۔ میری حکومت میں کرپٹ اور بد عنوان افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ کیا آپ نے اپنی تقریروں میں اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت اور ملکی سلامتی کا تحفظ ہے؟ پھر آج کیوں آپ جی ایچ کیو کے ساتھ ایک پیج پر ہیں؟ آپ کی کابینہ کیوں پرویز مشرف کے کرپٹ اور بد عنوان ساتھیوں پر مشتمل ہے؟ آپ نے جن لوگوں کو ڈاکو اور لٹیروں کا خطاب دیا تھا، وہ کیوں آج آپ کی حکومت میں اہم مناصب پر فائز و براجمان ہیں؟ کیا پاکستان ریلوے کو ٹریک پر لانے، اربوں کے خسارے اور ایک بہت بڑے ملکی اثاثے کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے شیخ رشید جیسا غیر ذمہ دار، ناشائستہ اور ریلوے سے متعلق ٹیکنیکل صلاحیت سے عاری شخص ہی موزوں اور مناسب ہے؟ اب تک شیخ رشید کی کارکردگی کیا ہے جو آپ نے اس کو کابینہ اجلاس کے دوران میں امتحان میں اول درجے میں پاس کیا؟ کیا غلام سرور خان نامی شخص توانائی بحران کو ختم کرنے کا اہل ہے؟ آپ نے سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے منیجنگ ڈائریکٹروں کو فارغ کرکے خود تسلیم کیا کہ غلام سرور خان اس بھاری ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے نہ کوئی فنی علم رکھتا ہے، نہ وہ اس کے لیے انتظام و انصرام کرنے کا اہل ہے۔ وہ تو ایک شاطر اور چالاک سیاست دان ضرور ہے، جو ہر حکومت اور اقتدار کی بُو کو سونگھ کر اس میں اپنا حصہ وصول کرنے کا گر جانتا ہے، لیکن تیل و گیس اور توانائی کے دیگر ذرائع جو ملک و قومکے لیے اور ملکی معیشت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ اس کے لیے کسی اہل اور اس فیلڈ سے متعلق علم و تجربے کے حامل شخص کا تقرر ضروری نہیں تھا۔ بجلی اور گیس کی کمی اور لوڈشیڈنگ کی ذمہ داری آپ قبول کریں گے، یا غلام سرور خان؟ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں متعلقہ شخص ذمہ داری قبول کرکے مستعفی ہو جاتا ہے۔ آپ کے انتخاب اور افراد شناسی کی داد نہ دینا ظلم کے زمرے میں آئے گا کہ آپ نے چوہدری فواد حسین جیسے حاضر جواب، دوٹوک لہجے میں بات کرنے والے چرب زبان، کڑوے کسیلے لہجے میں حزبِ اختلاف کے لتے لینے والے گھاٹ گھاٹ کے پانی پینے والے اس گوہرِ نایاب کو دریافت کرکے ملک و قوم کی خدمت پر لگایا دیا۔
کرپشن کے خلاف نیب کے اقدامات بالکل بجا، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس بالکل برحق، چوروں، لٹیروں اور بد عنوانوں کو سزا ملنی چاہیے اور ان عناصر کو اپنے انجام تک پہنچانا بالکل ضروری ہے، لیکن اگر وزیرِ اطلاعات ایسے شخص کو لگایا جاتا جو شائستہ، مہذب اور با وقار لہجے میں گفتگو کرتا، نیب اور عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ان مقتدر اور دستوری اداروں پر چھوڑ دیتا، تو کم از کم حکومت اور مقتد ر پارٹی تو جانب داری اور یک طرفہ احتساب کے الزام سے محفوظ رہتی۔ سیاسی سطح پر اشتعال نہ پھیلتا۔ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ماحول خوشگوار اور نارمل رہتا، لیکن کیا آپ نہیں جانتے کہ بجائے اس کے کہ شیخ رشید وزارت ریلوے کے معاملات سلجھاتے، حزب اختلاف کے خلاف تندو تیز بیانات کا ان کی وزارت سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اسی طرح چوہدری فواد حسین اگر اپنے لہجے کو ذرا شائستہ، دھیما اور معقول رکھتے اور احتساب کے معاملات نیب اور عدالت کے لیے چھوڑتے، تو مناسب نہ ہوتا؟ میرے کپتان آپ کو کرکٹ ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کے انتخاب کا کافی تجربہ تھا۔ کیا آپ کو اس کا تجربہ نہیں تھا کہ بیٹنگ کے لیے کیسے کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی جائے اور باولنگ کے لیے کس طرح کے کھلاڑی موزوں ہیں؟ فیلڈ میں کھلاڑیوں کو کن اہم پوائنٹس پر کھڑا کیا جاتا ہے کہ کیچ مس نہ ہو؟ لیکن ہم جب آپ کا انتخاب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دیکھتے ہیں، تو تعجب اور حیرانی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جغادری کھلاڑیوں جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، علیم خان، پرویز الٰہی اور چوہدری سرور کو لیڈ کرنے کے لیے آپ ایک مجہول تعارف و صلاحیت سے عاری شخص کو قائد مقرر کرتے ہیں، جن کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف کے یہ ریمارکس کافی ہیں کہ ’’پنجاب میں حکومت نظر نہیں آتی۔‘‘ کیا یہ تبصرہ آپ کے انتخاب کے لیے تازیانے کی حیثیت نہیں رکھتا!
کے پی کے میں صوبائی حکومت کی تشکیل سے آپ کی صلاحیت اور قوت فیصلہ کا پتا چلتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ کتنے مجبور ہیں۔ مختلف عناصر کو قابو میں رکھنے کی آپ کی صلاحیت کتنی کمزور ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ روپے کی قیمت میں کمی کا فیصلہ آپ کو ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے، حالاں کہ گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ہم نے وزیرِ خزانہ اسد عمر کو آگاہ کیا تھا۔ آپ کے وزیرِ خزانہ نے اب تک اس ابہام اور کنفوژن کو برقرار رکھا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط طے ہوتی ہیں یا نہیں؟ لیکن آپ کے وزیرِ خزانہ نے قرضے کی شرائط طے ہونے سے پہلے ان کی شرائط کو تسلیم کرکے کے ان کے زیادہ تر مطالبے پورے کیے۔ گیس میں بیالیس فیصد اضافہ بجلی کی قیمت میں اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کرکے آپ نے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آج اگر کوئی چیز ایک سو روپے میں ہے تو ہفتے بعد ایک سو چالیس روپے میں۔ میرے کپتان کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اسد عمر اینگرو میں منیجر تھا، معیشت دان نہیں اور نہ اس کو پاکستان کے اقتصادی مسائل و مشکلات کا کوئی علم تھا بلکہ اس نے تو اپنی نااہلی سے اینگرو کا بھی بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اگر آپ کے پاس کوئی مناسب ٹیم ہوتی اور آپ جرأت مندانہ فیصلے کرنے کے اہل ہوتے، تو صرف ایف بی آر کی اصلاح کرکے اور اس سے کرپٹ عناصر کو نکال کر آپ موجودہ اقتصادی بحران کو کنٹرول کرسکتے تھے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں