احمد سعید کالم

کشمیر کے بارے میں پاکستان اور عالمِ اسلام کا کردار

شاید آج ہم 72 سال قبل کی صورت حال سے بہتر حالت میں ہیں۔ اُس وقت پورا عالمِ اسلام براہِ راست دشمنانِ اسلام کا غلام اور مفتوح تھا۔ دشمن ہی ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اور دشمن ہی ہمارے وسائل پر براہِ راست قابض و متصرف تھے، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارا دشمن سازشیں تو کر رہا ہے اور کہیں پر جب اس کو خدشہ ہو کہ ہمارا کوئی عنصر سر اٹھا رہا ہے، تو براہِ راست بھی حملے کرکے اور طاقت و قوت کا استعمال کرکے ہمیں مغلوب کرتا ہے، لیکن اِس وقت مسلمان خود ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں خانہ جنگیاں ہیں۔ شام اور یمن کی صورت حال پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ حوثی شیعہ قبائل بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن یمن میں ایران کی شہ اور مدد سے بغاوت اور خانہ جنگی کا آغاز انہوں نے ہی کیا ہے۔ اور وہ اپنے مخالف مسلمان عوام پر غیروں اور دشمنوں سے بھی زیادہ بے رحمانہ حملے کرکے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتلِ عام کررہے ہیں۔ اسی طرح سعودی مطلق العنان بادشاہ بھی اپنی حکمرانی کو محفوظ و مامون بنانے کے لیے یمنی عوام پر اندھا دھند بمباری اور فضائی حملے کرکے مسلمان عوام کو قتل کر رہے ہیں۔ آدمی یہ سوچ کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا شیعہ اسلام اتنا تنگ نظر، متعصب اور ظالم ہے کہ صرف مسلکی اختلاف کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں کے قتلِ عام کو جائز رکھتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ دینِ اسلام کو ماننے والا کوئی فرقہ بھی اس کو جائز ثابت نہیں کر سکتا، لیکن تعصب مسلمان ملکوں کے ماحول اور حالات پر چھایا ہوا ہے۔ بھلا یہ بات کسی عقلمند، بالغ نظر اور غیر متعصب شخص کے ذہن و فہم کو قبول ہو سکتی ہے کہ شام پر مسلط خونی درندے حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشار الاسد کے جبر و تشدد اور ظالمانہ حکومت کے خلاف شامی مسلمان عوام کی جدوجہدِ آزادی اور جمہوری حکومت کے قیام کے لیے تحریک کو صرف اس بنیاد پر کچلنے میں مدد و تعاون کیا جائے کہ بشار شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟ اس خانہ جنگی میں روس جیسے اسلام دشمن اور بشار خاندان کے دیرینہ دوست کی مدد و تعاون تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن اسلامی جمہوری ایران کی بشار حکومت کو بچانے کی کوشش اور مداخلت اس وجہ سے فہم و ادراک سے ماورا ہے کہ خود ایرانی عوام نے ایران پر مسلط شہنشاہ کے خلاف جدوجہد کے دوران میں بے شمار جانوں کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی ہے، لیکن آج یہی اسلامی جمہوری ایران کی حکومت جس کی قیادت قرآن و سنت کا علم رکھنے والے علما، علامہ اور مجتہد کر رہے ہیں، نے پورے عالمِ اسلام کو انتشار و افتراق اور خانہ جنگی کا شکار کر رکھا ہے۔ افغانستان میں طالبان جس امریکی قبضے اور جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں، اس میں ایران کا کردار مشکوک طالبان کے خلاف ظالم اور جارح قوت امریکہ کے حق میں رہا ہے۔ اسی طرح شام، عراق، لبنان اور یمن میں خانہ جنگی بھی اس کے مسلکی تعصب کی وجہ سے جاری ہے، جس کی وجہ سے پورا عالمِ اسلام قتل اور خوں ریزی کا شکار ہے۔ سعودی عرب، امارات اور مصری فوجی ڈکٹیٹر کو بھی اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ عالمِ اسلام کے بچے، بوڑھے اور عورتیں قتل ہو رہی ہیں، بلکہ ان کا اصل مقصد صرف اپنی حکمرانی کی حفاظت و بقا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس سنی اتحاد کے دعویداروں نے امریکہ جیسے اسلام اور مسلمان دشمن قوت کی سرپرستی قبول کی ہے اور اس کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس طرح عالمِ اسلام کو انتشار و افتراق کا شکار کرکے ایک طرف اپنی بالادستی قائم کرے اور دوسری طرف اپنی طفیلی اسرائیلی حکومت کے فتنے کی حفاظت کرے۔ تیسری طرف ان متحارب مسلمان ملکوں کو مہلک اسلحہ فروخت کرکے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرے۔
خادمِ حرمین شریفین کے لیے صرف اپنی حکمرانی کی حفاظت ہی اصل مسئلہ ہے۔ ان کو یہ احساس تک نہیں کہ حکمرانی کی بقا اور تحفظ کے لیے وہ عالمِ اسلام کے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے قتلِ عام کا وہ قیامت کے دن اللہ احکم الحاکمین کو کیا جواب دیں گے؟ کیوں کہ اس قادر ولایزال ہستی کے ہاں ظلم و طغیان کی سزا دینے کے لیے دیر تو ہے، لیکن اندھیر نہیں۔ اس طرح کے کتنے باجبروت صاحبانِ اختیار و اقتدار کو اس نے دنیا ہی میں عبرتناک سزائیں دی ہیں۔ آج وہ مطلق العنان باشاہتیں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہیں، لیکن کوئی عبرت نہیں پکڑتا۔
قارئین، کتنے افسوس اور رنج و غم کی بات ہے کہ ایک کروڑ چالیس لاکھ کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے ظالم متعصب ہندو مودی کو امارات اپنے اعلیٰ اعزاز سے نوازتا ہے اور بحرین جیسی طفیلی ریاست بھی اس کی دوستی کا بھرم بھرتی ہے۔ مظلوم کشمیری عوام کی حمایت کے لیے عالمِ اسلام سے کوئی توانا آواز اٹھنے کی بجائے تقریباً تمام مسلمان ملکوں نے مجرمانہ اور مصلحت آمیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کبھی وہ وقت بھی تھا کہ ایک مظلوم مسلمان بیٹی کی فریادکو دمشق اور بصرے میں سنا گیا اور اس کا بدلہ لینے کے لیے پورے سندھ کو فتح کیا گیا، لیکن ”غیرت نام تھا جس کا گئی تیمر کے گھر سے۔“ آج مسلم امہ جائے بھاڑ میں۔ یہ جدید اور ترقی یافتہ دور ہے۔ ہمیں ا س دنیا میں رہنا ہے۔ اقوامِ عالم کی برادری میں چودہ سو سالہ دقیانوسی اور فرسودہ نظام سے تعلق اختیار کرکے دنیا میں نکو نہیں بننا ہے۔ کیوں ٹھیک ہے نہ یہ بات، اور وہ ملک جو خاص طور پر دینِ اسلام کے نظریے اور عقیدے پر قائم ہوا۔ تقسیم ہندو پاک کے وقت سازش کے طور پر کشمیر کو اس سے الگ کرکے ہندوستان کے قبضے میں دے دیا گیا اور جو بقولِ قائد اعظم، ”پاکستان کی شہ رگ ہے۔“کیوں کہ پنجاب کے چار دریاؤں کا منبع کشمیر میں واقع ہے۔ اس کے پرانے سیاست دانوں نے بھی کشمیر کے بارے میں مجرمانہ نااہلی اور عزم و ہمت سے تہی پالیسی کے ذریعے کشمیر پر بھارت کا ظالمانہ قبضہ دلانے میں کردار ادا کیا۔ پورے 70 سال کے دوران میں پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر کو صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا۔
آج کے پاکستانی حکمران عمران خان کا طریقہئ واردات تو بہت ہی پر اسرار ہے۔ امریکی یاترا کے دوران میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو اپنی عظیم سیاسی فتح قرار دیا اور یہ سمجھ کر خوشی و مسرت کے شادیانے بجائے گئے کہ گویا مسئلہ کشمیر حل ہوگیا، لیکن بھارت کے متعصب اور مسلمان دشمن وزیر اعظم مودی نے اس بیان کے رد عمل میں اپنے دیرینہ منصوبے کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور کشمیر کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ قرار دے کر اپنے اس منصوبے کی تکمیل کی طرف کامیاب قدم اٹھایا کہ خطہئ کشمیر کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے وہاں پر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے، لیکن اس کے خلاف عمران خان نے زبانی کلامی تقریروں اور بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، بلکہ اس کے بیانات سے ایک اور تأثر ابھرا اور وہ یہ کہ گویا ہندوستان آزاد کشمیر کو بھی قبضہ کرنے والا ہے۔
ایک طرف تقریباً ایک ماہ سے کشمیری عوام سخت کرفیو کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی عمرانی حکومت نے نہ اس کے خلاف تجارتی پابندیاں لگائیں، نہ اپنی زمینی اور فضائی راستے اس کے لیے بند کیے، اور نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلق میں کوئی کمی کی، بلکہ اس دوران میں بھی عمران خان اپنے آپ کو امن کا پجاری ثابت کرتے ہوئے باربار مودی سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ کرتار پور ہ راہداری کھولنے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں، جو سراسر بھارت کے مفاد میں ہے۔ ا س دوران میں مودی نے دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کرکے ان کو اپنے مؤقف کا قائل کیا اور دنیا نے اس کے اقدامات کی تائید وحمایت کی، لیکن عمران خان اور اس کے وزیر خارجہ ملک میں بیٹھ کر صرف بے جان و بے روح بیانات دے رہے ہیں کہ ”دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ لہٰذا دنیا اس نیوکلیئر ایٹمی جنگ کا تصور کرکے ہندوستان کو لگام دے اور کشمیریوں کی حمایت کرے۔“ لیکن پوری دنیا تو آپ کے طرزِ عمل کو دیکھ رہی ہے کہ جب آپ خود بھارت کے خلاف ابتدائی قسم کی جوابی کارروائی سے معذور ہیں، تو دنیا آپ کی ایٹمی جنگ کے خدشے کو کیوں کر قبول کرے گی؟ قیادت کی اس قسم کی تبدیلی کو دیکھ کر وہ غلامی کا دور یاد آتا ہے جب ہماری قیادت انتہائی مخلص، اعلیٰ علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے آراستہ شخصیات پر مشتمل تھی، لیکن آزادی ملتے ہی ہم پر انگریزوں کے ذہنی غلام مسلط ہوگئے اور 1947ء سے لے کر اب تک ہماری قیادت کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ مشرف، بے نظیر، زرداری اور نواز کے بعد اب ہم عمران خان کی قیادت و سیادت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں اور معلوم نہیں آگے اور کیا ہوگا؟ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں