Uncategorized @urاحمد سعید کالم

مدنی ریاست اور اس کا بنیادی کردار

احمد سعید
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، رسولؐ اللہ کے براہِ راست شاگرد اور تربیت یافتہ تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان نفوسِ قدسیہ کو اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کے قیام و نفاذ کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت قرآن اور اس کی عملی تشریح و تفسیر کی، محمد رسولؐ اللہ کی ایک ایک بات اور ایک ایک حکم کی اہمیت و اِفادیت سے واقف تھے۔ اُن صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا مرتبہ ہر لحاظ سے تمام صحابہ سے منفرد اور ممتاز ہے۔ وہ ابوبکر صدیقؓ جو بالغ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ متمول اور صاحبِ ثروت تا جر ہونے کے لحاظ سے اپنا مال اتنا بے دریغ خرچ کیا کہ ان کے والد ابو قحافہ کو خدشہ ہوا کہ ابوبکر کہیں قلاش و محتاج نہ ہو جائے۔ ان کے مزاج میں نرمی و عاجزی تھی۔ جب غزوہئ بد ر کے قیدیوں کا مسئلہ شوریٰ میں پیش ہوا، تو حضرت عمر فاروقؓ کی رائے تھی کہ یا رسولؐ اللہ، ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن اس کے خلاف حضرت ابوبکرؓ کی رائے تھی کہ ان سب کو معاف کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے زرِ فدیہ کے عوض حضرت ابوبکرؓ کی رائے پر عمل کرکے ان سب کو رہا کر دیا۔ یہی ابوبکر صدیقؓ جب محمد مصطفیؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ مقرر ہوئے اور ان کے ڈھائی سالہ دور کے شروع میں فتنہ ارتداد اور فتنہ انکار زکوٰۃ سامنے آیا، تو ان دو اہم بنیادی مسائل پر غور کے لیے شوریٰ کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ سخت مزاج حضرت عمرؓ کی رائے اس بارے میں سامنے آئی کہ حضور نبی کریمؐ کا انتقال ہو چکا ہے۔ ہم کمزور ہیں۔ ایسے وقت میں جنگ کی بجائے حکمت عملی سے کام لیا جائے، لیکن وہ شخص جو ہر موقع پر معاف کرنے اور درگزر کرنے والا تھا اور انتہائی نرم مزاج تھا، اس موقع پر اس کا انداز انتہائی جارحانہ اور مؤقف انتہائی سخت تھا۔ اس نے کہا کہ عمر تم کب سے بزدل ہو گئے؟ مَیں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان مانعینِ زکوٰۃ سے اس وقت تک جنگ کروں گا، جب تک ان سے زکوٰۃ کے جانور کی وہ رسی بھی وصول نہ کروں جس سے وہ جانور کو باندھتے ہیں۔ یوں مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ اور ان سے زکوٰۃ کی وصولی کا دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ اپنی رائے پر اکثر پشیمانی اور ندامت کا اظہار فرماتے تھے، لیکن اس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ جہاں بنیادی اصول کا معاملہ ہو، اس پر نہ نرمی کی جاسکتی ہے اور نہ سمجھوتا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک اہم رکنِ اسلام زکوٰۃ کی اہمیت و اِفادیت کا اندازہ تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے کسی قسم کی نرمی اور مداہنت سے انکار کرکے مانعینِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ دینے پر مجبور کیا، اور ایک اہم رکنِ دین کو بحال کر دیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پورا دینِ اسلام عطا فرمایا تھا اور قرآن میں اس کی صراحت کے ساتھ وضاحت فرمائی تھی کہ ”ان الدین عنداللہ الاسلام“ کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ“ جس نے دینِ اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کیا،تو یہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس دین یعنی ضابطہئ حیات میں بنیادی ارکان اسلام کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے اور گوشے کے لئے تفصیلی ہدایات اور قوانین موجود ہیں۔ نظام زکوٰۃ اور عشر کو جب مدنی ریاست میں قائم کیا گیا۔ اور اس کے اس بنیادی اصول پر عمل در آمد کیا گیا کہ صاحب ثروت اور صاحب مال سے زکوٰۃ وصول کرکے معاشرے کے محروم اور مجبور طبقے پر خرچ کیا جائے۔ تو اس اجتماعی نظام کی معاشی فوائد و نتائج سامنے آگئے۔ اور اسلامی معاشرے میں مجبور و لاچار اور معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے ایک زبردست معاشی کفالتی نظام وجود میں آیا۔ مسلمان جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم صلوۃ کی ادائیگی ذوق و شوق اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے تھے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی بھی صمیم قلب اور دلی خوشی و فرحت کے ساتھ کرتے تھے۔ جو لوگ اس کو ایک طرح کا بوجھ اور حکومتی ٹیکس سمجھتے تھے، ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں۔ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے۔
قارئین، آج تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال کا عرصہ پورا ہوگیا۔ اس حکومت کے قیام سے ہی اس کو معاشی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ ان سے پہلے تیس سالہ دورِ حکومت کے دوران میں اتنے قرضے لیے گئے ہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ سالانہ بجٹ کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہوتا ہے۔ عمران خان نے بجائے اس کے کہ خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرتے۔ اندرونی طور پر سرکاری انتظامی اخراجات کم کرتے ہوئے کفایت شعاری اختیار کرتے۔ دیگر ایسے بہت سے اقدامات ممکن تھے، مثلاً درآمد برآمد میں توازن پیدا کرتے۔ سمگلنگ کو سختی کے ساتھ بند کرتے۔ اپنی صنعتوں کو فعال بنانے اور فروغ دینے کے لیے مراعاتی پیکیج دیتے۔ پاکستان چوں کہ زرعی ملک ہے۔ اس وجہ سے زراعی مصنوعات پر مشتمل صنعتوں کو فروغ دیتے، لیکن اس ایک سال کے دوران میں زبانی دعوؤں اور نعروں کے سوا اور کچھ نہیں کیا گیا، بلکہ نواز، زرداری اور پرویز مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزید قرضے لینے شروع کیے۔ اس سے پہلے تو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض معمول کی شرائط پر ملتا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری اور معاملہ فہمی کی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ نہایت سخت اور ملکی خود مختاری کے چیلنج کی شرائط پر صرف چھے ارب ڈالر قرضہ تین سال کے عرصے میں منظور کیا گیا۔ اس کے بدلے میں تحریک انصاف حکومت نے پورا خزانہ آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا۔ ان کے حکم سے بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں مقرر ہوں گی۔ ان کی مرضی سے ٹیکسز لگیں گے اور عوام پر آئے روز گرانی اور مہنگائی کے بم گرائے جائیں گے۔ عملی صورت حال تو یہ ہیم لیکن جب بات کرتے ہیں، تو فرماتے ہیں کہ ”ہمارا مقصد پاکستان کو مدنی ریاست بنانا ہے۔“ کوئی ان کو بتائے کہ مدنی ریاست تو زبانی کلامی نعروں کا نام نہیں۔ وہاں پر جب اللہ کے آخری رسول محمد مصطفیؐ نے ہجرت کی، تو ابھی اپنے جائے قیام میں باقاعدہ فروکش بھی نہیں ہوئے تھے کہ راستے ہی میں مسجد قبا تعمیر کی، اور قیام کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر کی۔اس طرح ریاست کی ابتدا نظامِ صلوٰۃ کے قیام سے شروع ہوئی اور پھر جو بھی حکم اللہ کی طرف سے آتا، اس کو نافذ کیا جاتا۔ شراب کی ممانعت ہو، پردے کا حکم ہو، نکاح و طلاق کے قوانین ہوں، سود کی حرمت و ممانعت کا حکم ہو، زکوٰہ کی ادائیگی کا حکم ہو، جو بھی حکم دیا جاتا، وہی حکم مدنی ریاست کا قانون قرار پاتا۔ قصاص و دیت کے قانون سے جان و مال کا تحفظ فراہم ہوا، پردے کے حکم سے مردوزن کا اختلاط اور اس کے نتیجے میں فحاشی و عریانی کا ماحول ختم ہوا اور ایک باحیا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آیا، زکوٰۃ و عشر کے نظام سے معاشی مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا، صدقات و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کا ماحول پروان چڑھا، اور اس کے نتیجے میں صاحبِ ثروت طبقے اور محروم طبقے میں دوری محبت و اخوت میں بدل گئی، سود کی ممانعت سے اور تجارت کے فروغ سے سرمایہ گردش کرنے لگا، اور دولت کا ارتکاز اور چند افراد تک محدود ہونے کا مسئلہ حل ہوا۔
خاں صاحب، تمہاری نام نہاد مدنی ریاست میں سود کا نظام جاری و ساری ہے اور شرحِ سود تم نے آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ساڑھے تیرہ فیصد تک بڑھا دی۔ تمہاری مدنی ریاست میں اللہ کی حدود پائے مال ہو رہی ہیں۔ عریانی و فحاشی عام ہے۔ پرویز مشرف کے دور سے فحاشی و عریانی کا بیرونی ایجنڈا بروئے کار آیا اور تمہارے دور میں بامِ عروج تک پہنچا اور سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر آزاد خیال، لبرل اور دین بے زار عناصر تحریکِ انصاف میں جمع ہو گئے ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا شوشا چھوڑتے ہیں جس سے آپ کی مدنی ریاست کی حیثیت آشکارا ہوتی رہتی ہے۔
خاں صاحب! مدنی ریاست کی سب سے بڑی خوبی اور پہچان یہ تھی کہ وہ آزاد، خودمختار اور اپنے فیصلے خود کرتی تھی، لیکن آپ کے ایک سالہ دورِ حکومت کے دوران میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ آپ تمام تر فیصلے بیرونی دباؤ اور احکامات کے تحت کرتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے نام پر دینی مدارس و مراکز اور جہادی عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن اور گرفتاریاں کس چیز کو ظاہر کرتی ہیں؟ امریکی یاترا سے پہلے حافظ سعید کی گرفتاری کیا اس کا ثبوت نہیں کہ آپ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے حافظ سعید کی گرفتاری تحفے کے طور پر امریکہ اپنے ساتھ لے کر گئے۔ حالاں کہ منی لانڈرنگ کا الزام تو نواز، زرداری اور گذشتہ حکومتوں میں شامل نام نہاد سیاسی عناصر کے خلاف ہے۔
خاں صاحب! آپ کی حکومت میں شامل بہت سے افراد بھی اس جرم کے مرتکبین میں شامل ہیں، لیکن نزلہ گرتا ہے تو بے چارے دینی عناصر پر، جو اس ملک و قوم کے اصل اور حقیقی پشتیبان اور محافظ ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں