احمد سعید کالم

نام نہاد جمہوریت

جمہوریت کے بارے میں یہ مقولہ بڑا مشہور و معروف ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے عوام کے لیے ہوتی ہے۔ جمہوریت، آمریت اور مطلق العنانی کی ضد ہے، جس میں ایک فرد یا افراد کا ٹولہ ’’مختارِ کل‘‘ ذاتی اختیارات اپنے ذات کے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن یار لوگوں نے جمہوریت یعنی عوامی حاکمیت اور عوامی فلاح و بہبود کے نظام کو بھی اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جمہوریت اور عوامی حاکمیت کے نظام سے روح کو نکال کر ظاہری ڈھانچے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں اکثر تو جمہوری نظام ہی موجود نہیں اور جہاں برائے نام موجود ہے، وہ بھی صرف اس حد تک کہ ہر پانچ سال بعد عوامی رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا ڈھونگ رچا کر اقتدار و اختیار پر قبضہ جمایا جاتا ہے۔ انتخابات بھی ایسے جن میں اکثر 20,25 فیصد عوام دھونس، دھاندلی اور مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں کے ماحول میں حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعدکوئی جمہوریت کا نام لیتا ہے اور نہ عوامی حاکمیت ہی عملی شکل میں نظر آتی ہے۔ چالاک، خود غرض، مفاد پرست اور بد نامِ زمانہ سیاسی چالوں کی ماہر نام نہاد اشرافیہ بلکہ صحیح معنوں میں ’’بدمعاشیہ‘‘ نے اختیار و اقتدار پر قبضے کے لیے جا گیرداروں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل ’’ٹرائیکا‘‘ تشکیل دیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر آمریت، مطلق العنانی اور شہنشاہیت کا ایک نیا برانڈ تشکیل کیا ہے جس میں عوام سائلین، درخواست گزار، حاجت مند اور بھیک مانگنے والے فقیر بنا کررکھے گئے ہیں۔ یہ کتنامضحکہ خیز اور احمقانہ نظام ہے، جس میں مالک (یعنی عوام) سائل اور درخواست گزار، دعا گو اور فرمان بردار بن کر اپنے ہی نوکروں سے مسائل کا حل، عدل و انصاف اور مدد و تعاون کی بھیک مانگتا ہے۔ وہ افراد جو انتخابات کے دوران میں در در دستک دے کر ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس دوران میں ہر خوشی و غمی میں شرکت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ زبانی سلام اور ہاتھ ملانے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ معانقہ اور گلے مل کر پیشانی تک چوم کر محبت و تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر ایسے موقع پر ہر شخص کے ساتھ رشتے ناتے تازہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ہر شخص کا عزیز و رشتہ دار ثابت کرتے ہیں، لیکن جب نتیجے کا اعلان ہوتا ہے اور اپنی کامیابی کی خوشخبری سنتے ہیں، تو وہی عوام پھر ان کے ڈیروں اور حجروں میں ان سے ہاتھ ملانے کے لیے قطار میں کھڑے انتظار کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک صاحب کو فون کیا اور قومی حلقے کے نمائندے جو اَب خیر سے وفاقی وزیر بھی ہیں، سے ایک کام کے لیے فون نمبر دینے کے لیے کہا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اب ان کا فون بند رہتا ہے اور وہ کسی کا فون نہیں سنتے۔ خیر سے جب وہ وفاقی وزیر یعنی مرکز میں وزیر بھی بن گئے، تو اب ان کو اپنے حلقے میں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بس اگر زندگی رہی، تو پانچ سال بعد پھر دیکھا جائے گا۔ اب تو عیش ہی عیش ہے۔ پھر کیوں اپنے عیش کو عوامی مسائل اور مشکلات سن کر منغض کیا جائے؟
قارئین، یہ ہے موجودہ نام نہاد پارلیمانی جمہوریت، جو برطانوی غلامی میں رہنے والے ملکوں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ میں رائج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ کم از کم پاکستان میں عوام اس پارلیمانی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتائج سے اتنے مایوس، دلبرداشتہ اور بیزار ہوگئے ہیں کہ اس میں عوامی شرکت یعنی ’’ٹرن آؤٹ‘‘ شرمناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ پھر اگر کسی حلقے میں چار پانچ یا دس پندرہ افراد انتخاب میں حصہ لے رہے ہوں، تو جیتنے والا امید وار بہت کم لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اکثریتی ووٹ یا تو اس میں سرے سے شریک ہی نہیں ہوتا اور یا ووٹوں کی تقسیم سے نمائندگی سے محروم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ، آزاد اور اپنے حالات و ماحول کے مطابق فیصلے کرنے والی اقوام نے عوامی نمائندگی کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے متناسب نمائندگی کا نظام مختلف شکلوں میں اختیار کیا ہے۔ مثلاً امریکی نظام جس میں کانگریس اور سینٹ کے انتخابات اور صدر کے براہِ راست انتخاب کا نظام ، جرمنی میں چانسلر اور پارلیمنٹ کا انتخابی نظام، فرانس، اٹلی، سپین اور سکنڈنیوین ممالک کے عوامی نمائندگی کے نظام میں ایک بنیادی قدر مشترک ہے کہ کوئی ووٹ نمائندگی سے محروم نہ رہے۔ یا یہ پابندی کہ جس پارٹی کو پانچ یا دس فیصد نمائندگی نہ ملے، وہ سیاست سے آوٹ، اسی طرح کے دوسرے اقدامات۔اس کے علاوہ ان ممالک میں جمہوریت اور ڈیموکریسی صرف انتخابات کا نام نہیں بلکہ عوامی خدمت اور فلاح و بہبود کا نام حقیقت میں جمہوریت ہے۔ اسلامی تاریخ میں آپ اس کی نظیر یں دورِ خلافت راشدہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو صرف مدینہ منورہ کے باشندوں نے خلیفہ منتخب کیا تھا، لیکن اپنے ڈھائی سالہ دورِ خلافت میں انہوں نے عوامی فلاح و بہبود، عدل و انصاف اور ملکی باشندوں کی ذاتی ضروریات اور خدمات کی انجام دہی کی سنہری تاریخ رقم کی۔ حضرت عمرِ فاروقؓ جن کو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بذاتِ خود نامزد کیا تھا، لیکن ان کا دس سالہ دورِ خلافت تاریخ میں ایک مثالی دورِ حکومت کے طور پر درج ہے۔ بھلا کسی حکمران میں کسی نے ایسا حوصلہ ، تحمل، قوتِ برداشت اور صبرو استقامت دیکھی ہے کہ جب وہ منبر پر خطاب کا آغاز کرتے ہیں، تو ایک شخص اُٹھ کر کہتا ہے کہ میں اس وقت تک آپ کی بات نہیں سنوں گا، جب تک آپ اس بات کی وضاحت نہ کریں کہ جو کپڑا ہمیں مالِ غنیمت میں ملا تھا۔ اس سے تو میری قمیص نہیں بنتی، آپ کی کیسے بن گئی؟ تو اس وقت کے ایک وسیع و عریض مملکت کا سربراہ غصے اور طیش میں نہیں آتا بلکہ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو وضاحت کے لیے کہتا ہے۔ اور جب بیٹا یہ وضاحت کرتا ہے کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دیا ہے۔ اس وجہ سے ان کا کرتا بن گیا ہے، تو سائل مطمئن ہو کر کہتا ہے: اب کہو ہم سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔
یہ ہوتی ہے جمہوریت اور اقتدار کی ذمہ داریوں کے بارِ گراں کا احساس کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا، تو عمرؓ سے قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جب قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے، تو خلافتی اور حکمرانی استثنا کا خیال نہیں آیا بلکہ مدعی کے ساتھ قاضی کے سامنے کھڑے ہوئے اور جب قاضی نے ’’یا امیر المؤمنین!‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا، تو خفگی کا اظہار کرکے فرمایا: ’’مَیں اس وقت امیر المؤمنین نہیں بلکہ عدالت کے روبرو کھڑا عمر بن خطاب ہوں۔‘‘
پاکستان میں تو طرزِ حکمرانی بھی ایک مذاق ہے۔ سیاست و حکومت کو بھی ایک مذاق اور مضحکہ بنا کر رکھا گیا ہے۔ عدل و انصاف کے لیے قائم ادارے بھی مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر مشیر بن کر پیپلز پارٹی میں با اختیار و با اقتدار بن کر اور اب موجودہ حکومت میں عمران خان کے نفس ناطقہ بن کر دوسرے چوروں، لٹیروں اور بد عنوانوں کو ایسے للکار رہے ہیں کہ گویا کہ خود تو آب زم زم سے نہا کر پاک صاف اور امانت و دیانت کے پیکر بن گئے ہیں۔
ماشاء اللہ! عدل و انصاف کے لیے قائم اداروں کی عمارتیں بھی عالی شان اور نام بھی ’’عدالتِ عالیہ‘‘ اور ’’عدالت عظمیٰ‘‘ ہیں، لیکن منصفوں کی کارکردگی، اہلیت اور قابلیت سوالیہ نشان ہے۔ منصفِ اعلیٰ کا عدالت کی عالی شان مسند پر بیٹھ کر مجرم سے بارگینگ کا یہ انداز کتنا عجیب ہے کہ ’’بیس ارب، ورنہ دس ارب دے دو، تو میں خود بینچ میں بیٹھ کر کلین کردوں گا۔‘‘ دو ایک جیسے کیسوں میں ایک میں سزا دوسرے میں بریت۔ دو دو تین تین اور لارجر بنچوں میں پانچ اور سات جج بیٹھ کر بھی آئین و دستور اور قانون کی مضبوط، مستحکم اور واضح دلائل کی بنیاد پر فیصلے نہیں دے سکتے۔ کمزور، بے جان اور غیر متعلق دفعات کی بنیاد پر سنائے گئے فیصلے عوامۃ الناس کی مجلسوں اور محفلوں میں استہزا کے ساتھ زیرِ بحث رہتے ہیں۔ عدالتوں کا کام عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہے، جس عدالت میں چالیس ہزار مقدمات زیرِ التوا ہوں، تو اس کے منصف اعلیٰ کو دیگر حکومتی امور و معاملات میں مداخلت کا کیا حق پہنچتا ہے؟ ہاں، مگر جس مقدمے سے دلچسپی ہو، اوپر سے دباو ہو، تو ہزاروں فائلوں کے درمیان سے فائل نکال کر آسیہ ملعونہ کا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ کرکے اس کو رہا کر دیا جاتا ہے، لیکن سود کے خلاف نواز شریف کے ’’سٹے آرڈر‘‘ کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔ پیپلز پارٹی والے چوری اور سینہ زوری کا بر ملا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مزاروں اور برسیوں پر جلسوں میں نظامِ انصاف کو للکار رہے ہیں، لیکن عدالت گونگی اور بہری بن گئی ہے۔ ایک کمزور اینکر کو تو توہینِ عدالت میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے، لیکن بڑے بڑے چور اور لٹیرے سرِ عام عدالت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ملک کے اندر دو قانون ساز ادارے بھی قائم اور موجود ہیں۔ وقتاً فوقتاً اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں، لیکن کیا ان اداروں کے اجلاسوں کو اجلاس کہا جا سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ آپ اس کو ایک ’’سیاسی اکھاڑہ‘‘ اور ’’دنگل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ قانونی تقاضوں کے پیشِ نظر اجلاسوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے تو اجلاس بلائے جاتے ہیں، لیکن ’’تو تو، میں میں‘‘، دنگا فساد ، نا شائستہ الفاظ کے استعمال اور کبھی کبھی ہاتھا پائی تک تو نوبت پہنچ جاتی ہے، لیکن قانون سازی جس کے لیے یہ ادارے قائم اور منتخب کیے گئے ہیں۔ اس کی نوبت نہیں آتی۔ کبھی کمیٹیوں پر جھگڑا، کبھی استحقاق پر بحث اور کبھی کسی مسئلے پر تو تکار۔ یہ ہے قومی اسمبلی جس میں موجودہ حکومت کو سات ارکان کی عددی اکثریت حاصل ہے اور جن سات ارکان کی بنیاد پر یہ اکثریت حاصل ہے، وہ سب اپنے اپنے مفادات اور اغراض و مقاصد کے پورے نہ ہونے پر حکومت سے ناراض ہیں۔ ایسے میں قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟ قانون سازی کے لیے تو سنجیدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص افراد درکار ہوتے ہیں اور یہاں تو ماشاء اللہ ایسے ایسے جغادری ممبران تشریف فرما ہیں جو اگرچہ اپنے مفادات اور اغراض کے حصول کے لیے نہایت ہوشیار، چالاک اور ہر فنِ مولا ہیں، لیکن قانونی پیچیدگیاں اور باریک قانونی نکات مرتب کرنا تو بہر حال ان کے بس کی بات نہیں۔
ایسے میں مزید قانون سازی کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جو قوانین اور ضابطے پہلے سے موجود ہیں، ان پر عمل در آمد کہاں ہو رہا ہے؟ قانون کا نفاذ اور قانون کی بالادستی تو ویسے بھی پاکستان میں موجود نہیں، اور اگر دیکھا جائے، تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کا نفاذ ہے۔ لیکن یہاں تو حکمران بھی اپنے آپ کو قانون سے با لا تر سمجھتے ہیں اور عوام بیچارے تو قانون کے نفاذ اور بالا دستی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔
بہرحال ظلم کے دن تھوڑے ہوتے ہیں،ظلم کی کالی اور اندھیری رات آخرِکار ختم ہو جاتی ہے اور سپیدہ سحر نمودار ہو کر رہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں