تصدیق اقبال بابوکالم

وکیل حکیم زئی اور ان کی کتاب ’’د میگو کوٹگئی‘‘

خیر الحکیم حکیم زئی المعروف وکیل حکیم زے اِک معتبر گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ اُن کے بزرگوں کی تاریخ بھی شجاعت، بہادری اور جگر داری کی لازوال داستانوں سے مزین ہے۔ پردلی، کراری اور ستیزہ کاری کے علاوہ حب دوستی، ادب دوستی اور مہمان دوستی بھی ان کے خون میں پورے طریقے سے حلول ہوچکی ہے۔ آپ پیشے کے لحاظ سے تو وکیل ہیں، لیکن قلم اور تخیلی موقلم سے لفظوں کی بھری چھاگلیں بھی کاغذوں پہ اُنڈیلتے رہتے ہیں۔ آپ کی یہی لفظی مینا کاری کبھی ’’د پختو متلونہ‘‘ کبھی ’’د سین غاڑہ‘‘ کبھی ’’د بر سوات تاریخ‘‘ تو کبھی ’’دغہ زمونگ کلے دے‘‘ کی صورت میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ ’’د میگو کوٹگئی‘‘ بھی انہی میں سے ایک ہے، جس کا دوسرا ایڈیشن اس بات کا غماز ہے کہ پشتو کی کتابیں بھی خوب پڑھی جاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب انہوں نے اپنے مرحوم بھائی نورالحکیم حکیم زئی کے نام منسوب کی ہے، جو فہم و ادراک رکھنے کے باوجود بھی ’’سازشیوں‘‘ کی سازش کا شکار ہوگیا۔ اگلا صفحہ انہوں نے اپنے بھائی بدرالحکیم حکیم زئی کے نام معنون کیا ہے، جو پشتو ادبیات میں پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ساتھ پشتو کے استاد بھی ہیں۔ ساتھ ہی ’’مشال ادبی و ثقافتی تڑون‘‘ کے اُن ادبی یاروں کے نام بھی کتاب معنون ہے جو ستاروں کی آبجو کی مانند ان کے گرد ادبی ہالہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر کتاب کی ضخامت کے حوالے سے بات کی جائے، تو جس طرح صاحبِ کتاب دُبلے پتلے، نحیف و نزار اور مشتِ استخواں ہیں۔ اسی طرح کتاب بھی اکہری، پتلی اور چھوٹی سی ہے، لیکن اندر کی توانائی، پختگی اور انضمامت دونوں ہی کی عدیم المثال ہے۔ حالاں کہ ہم نے کئی ایک بھاری بھرکم ناموں والے بھاری بھرکم لوگوں کی اُتنی ہی بھاری کتابیں بھی پڑھی ہیں لیکن حالت ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ یا اس شعر کے مصداق ہی ہوتی ہیں کہ
خود بھی موٹا کلام بھی موٹا،
لفظ کی شکلِ خام بھی نہ ملی۔
دو کلو کی کتاب میں شاہدؔ
شاعری دو گرام بھی نہ ملی
’’د میگو کوٹگئی‘‘ ضخامت میں تو 128 صفحات پر محیط ہے جس میں پرویش شاہین، ڈاکٹر زبیر حسرت اور فقیر محمد فقیر کے دیباچے وغیرہ نکال لیے جائیں، تو (حصۂ پشتو میں) 17 مختصر مضامین ہی رہ جاتے ہیں جن سے ان کے اختصار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بقیہ 28 صفحات پر آپ کے اردو مضامین اپنی موجودگی کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں۔ دو ہی نشستوں میں کتاب کا لفظ لفظ پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ضخامت اور انضمامت میں گو یہ مضامین مختصر اور مٹھی بھر ہیں لیکن تاثیریت اور ہمہ گیریت میں ضرور یہ بے نظیر ہیں۔ صنفی حوالے سے یہ “Light essays” ہیں، جن میں زیادہ تر سیاسی، طبقاتی اور مزاحمتی قسم کے موضوعات ہی کا احاطہ موجود ہے۔ ’’د میگو کوٹگئی‘‘ اِک علامتی اور استعاراتی نام ہے، جو مصنف کے 1990ء میں لکھے گئے خط سے ماخوذ ہے۔ جب ہمارے صوبے کا نام نہیں تھا بلکہ اسے ’’سرحد‘‘ پکارا جاتا تھا، لیکن یہ نام آج بھی علامت، استعارہ اور اشارہ ہے، پختونخوا کے اُن غریب، نادار اور مفلوک الحال عوام کی طرف جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں، جنہیں بنیادی سہولیات تو دور کی بات پرائی جنگوں میں بھی زبردستی ایندھن کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔
کتاب کا پہلا مضمون ’’د پختو خط‘‘ طنز کے زہر میں لتھڑا ایک ایسا نشتر ہے جو ہمارے آج کے نوجوان کے کلیجے پہ دے مارا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان چاہے لیکچرار بھی بن جائے وہ پشتو کا خط نہیں پڑھ سکتا۔ اگلے دو مضامین بھی خطوط کی شکل میں ہیں جن میں ایک تو ’’د میگو کوٹگئی‘‘ ہے جب کہ دوسرا بھی پختونوں کی حالتِ زار کے متعلق ہے۔ ’’زما وطن‘‘ نامی مضمون میں اِک خواب کے ذریعے اپنا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’د پیری ٹوپئی‘‘ اِک سیاسی مضمون ہے، جس میں 58-2Bکی کرامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’حکومت خوار دے‘‘ اِک طنزیہ مضمون ہے جس میں شاہی شہ خرچیوں اور غریب عوام کی حالت زار کا رونا رویا گیا ہے۔ ’’ کہ خانی غواڑے‘‘ اور ’’تور لالی جانہ!‘‘ یہ بھی خطوط ہیں جن میں مصنف نے استعاراتی انداز میں اپنا سیاسی مؤقف پیش کیا ہے۔ ’’ونڈء‘‘ اِک مزاحیہ مضمون ہے جسے پڑھتے ہوئے لبوں پہ مسکان ضرور مچلنے لگتی ہے۔ اگلے دو مضامین بھی مزاح ہی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن ان میں اک پیغام ضرور موجود ہے۔ ان سے اگلا مضمون طنز کا لبادہ اوڑھے ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیا پاکستان پنجاب ہے یا پنجاب ہی پاکستان ہے؟ ’’گرانی نشتہ‘‘ بھی اک چبھتی ہوئی طنزیہ تحریر ہے۔ آپ کے تقریباً ہر مضمون میں پشتو محاورات اور ضرب الامثال کو برتا گیا ہے۔ ’’د سخرے ملک‘‘ اور ’’د سخرے قلعہ‘‘ اسی تناظر کا احاطہ کرتے ہیں۔ ’’لطیف ٹوق مار‘‘ کتاب کا آخری مضمون ہے جس میں اِک نائی کے دو دلچسپ واقعات کو بڑے ظریفانہ انداز میں لکھ کر شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آخر میں اِک ملی ترانہ ہے جس میں پختونوں کی تاریخ کو منظوم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حصۂ اردو شروع ہوتا ہے۔ جس کے عنوانات ’’کیا ہم پاکستانی ہیں؟‘‘، ’’باذوق چیل‘‘، ’’احتساب چہ است‘‘، ’’بڑا پاگل خانہ‘‘، ’’کڑوا سچ‘‘، ’’آندھی آئی‘‘، ’’میں افغان نہیں ہوں‘‘، ’’آئیں رو لیتے ہیں‘‘ اور ’’ژالہ باری‘‘ ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی کی بنا پر ان کی تفصیل کسی دوسری نشست پہ اُٹھا رکھتے ہیں۔
یار زندہ صحبت باقی!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں