فضل رازق شہابکالم

ملکان (ایک معاشرتی ادارہ)

  میرے مرحوم دوست حاجی اسماعیل ایک دن مجھے بتا رہے تھے کہ وہ ایک دوسرے کولیگ کے ساتھ ایک قبائلی ایجنسی گئے تھے، جہاں پر اُس دوست کا کزن پولی ٹیکل ایجنٹ (ایجنسی کا انتظامی، عدالتی اور مالیاتی سربراہ) تھا۔ وہ دونوں اُس کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ دفتر کے دروازے پر ایک پیش کار کھڑا تھا، جو ہر ملاقاتی کا نام پکارتا اور ایک کلف لگی کلاہ لنگی اور باریش معتبر یا ’’مشر‘‘ اندر آکر پی اے کے سامنے والی کرسی پر بعد از سلام و مصافحہ بیٹھ جاتا۔ کچھ رسمی جملوں کے بعد وہ اُٹھتا، تو صاحب دراز سے ایک بند لفافہ نکال کر ملک صاحب کو تھما دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، تو حاجی اسماعیل نے از راہِ تفنن کہا: ’’خان صاحب! ایک لفافہ مجھے بھی دے دیں۔‘‘ تو صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: ’’تم دو لے لو!‘‘
مَیں چوں کہ محقق نہیں ہوں اور تعلیم بھی واجبی سی ہے۔ نہ کوئی ڈگری، نہ کتاب…… بس اِدھر اُدھر کتابیں سونگھتا ہوں……تو مَیں نے ایک مدت گزری اہلِ علم و تحقیق سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بارے میں تحقیق کر کے بتائیں کہ یہ ’’ملک سسٹم‘‘ پشتونوں میں کب سے اور کیسے رائج ہوا…… مگر کسی نے بھی میری درخواست کو شرفِ قبولیت نہیں بخشی۔
کچھ کچھ اندازہ تو درجہ بالا دلچسپ واقعہ سے لگتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں انگریز دور سے آج تک حکومت کے وظیفہ خوار یا مواجب خوار سند یافتہ ملک سسٹم چلتا آرہا ہے…… جو اکثر صورتوں میں موروثی ہوتا ہے۔ باپ کے بعد بڑا بیٹا از خود ملک بن جاتا ہے۔
ہماری ریاستِ سوات کے ابتدائی دور یعنی باچا صاحب کے عہدِ حکومت میں نہایت بااثر افراد کو ’’ملکی‘‘ کی سند ملتی تھی۔ جن طاقت ور خوانین نے ریاست کے قیام میں دامے درمے اپنا رول ادا کیا تھا،اُن کو اپنے علاقے کا ملک بنا دیا گیا۔اس کیٹیگری کے ملکوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی، بلکہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔کیوں کہ اُن کے مراعات بہت زیادہ تھے۔ ایک حد تک وہ اپنے علاقے کے ڈی فیکٹو منٹظم تھے۔ ان کو سالانہ مواجب کے علاوہ علاقے کے ریوینو میں بھی حصہ ملتا تھا، جس کو ’’ملکانہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا، یہ تعداد میں بہت کم، مگر طاقت ور بہت تھے۔ پھر سرکار دربار کی سرپرستی میں ان کا کلہ اور بھی مضبوط ہوگیا تھا۔
ساتھ ہی ان کی چیرہ دستیاں بھی بڑھتی رہیں اور وہ اپنے آپ کو ریاست کے لیے بہت اہم اور ناگزیر سمجھنے لگے۔ جب میاں گل جہان زیب کو تخت نشینی سے پہلے محدود اختیارات مل گئے، تو اُن کو ملکان کی طاقت کا، اُن کے پریشر کا اور ذہنیت کا پتا چل گیا۔
پھر جب دسمبر 1949ء کو وہ بہ حیثیتِ حکم ران اقتدار کے مالک بن گئے، تو اُنھوں نے اس ادارے کے اختیارات اور مراعات ختم کرنے کا غیر محسوس طریقے سے آغاز کردیا۔ سب سے پہلے ریاستی ریونیو میں اُن کا ملکانہ کم کیا اور بعد میں مکمل ختم کیا۔ اب جب ریاست کو استحکام حاصل ہوا تھا، تو اُنھوں نے ملکوں کی تعداد بڑھانی شروع کی۔ یہاں تک کہ اُن کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ اُن میں سے بعض صرف سند یافتہ تھے۔ جب کہ بعض کے مواجب دس بیس روپیا سالانہ تک آگئے تھے، مگر لوگ پھر بھی صرف نام کی خاطر کوشش کرتے تھے ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ خالی سند ہی ملتی تھی۔
یہ معلومات اگر چہ بعض لوگوں کی طبیعت پر گران گزریں گی، مگر والی صاحب نے پشتون نسل کے علاوہ کئی دوسرے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو ملکی کی سند عطا کی تھی۔
آپ حضرات کی ماہرانہ اور پروفیشنل رائے کی امید پر یہ چند سطریں پیشِ خدمت ہیں۔ اللہ حافظ و ناصر!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں