سوشل میڈیا (فیس بُک) کے ذریعے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ودودیہ ہائی سکول کے ایک سو (100) سال پورے ہوگئے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اس عظیم درس گاہ کی شایان شان تقریبات منعقد کی جاتیں…… اور سوات کی تعلیمی ترقی میں اس کے لازوال کردار کو اُجاگر کیا جاتا، تو نئی نسل کو اِس کی عظمت کا پتا چل جاتا۔
اس ادارے سے کیسے کیسے نابغہ روزگار ہستیاں وابستہ رہیں، یہاں سے فارغ التحصیل افراد معاشرے میں کیا کردار ادا کرتے رہے…… ان سب اوامر کو منظرِ عام پر لایا جاتا۔ پرانے طلبہ کا ایک “Get Together” ترتیب دیا جاتا،تو کتنی دل چسپ اور حیرت انگیز تقریب بن جاتی۔
ودودیہ سکول کی اولین عمارت اُس وقت کے گھڑسواری کے میدان کے قریب اور سیدو مینگورہ روڈ سے کچھ فاصلے پر بنایا گیا تھا، اور اس سے کچھ فاصلے پر پرائمری بلاک تھا۔
ہماری یاد داشت میں صرف وہ پرائمری بلاک محفوظ ہے، جس کو کالج کی تعمیر کے بعد بورڈنگ ہاوس میں کنورٹ کیا گیا۔
کالج میں ابتدائی دور میں میٹرک کے طلبہ بھی پڑھتے تھے اور باقی کلاسوں کے لیے شگئی سیدوشریف میں سکول تعمیر کیا گیا۔
ودودیہ سکول ایک مختصر عرصے کے لیے معدوم رہا، مگر 1952ء کے اپریل تک سنٹرل جیل سیدو شریف کی شان دار عمارت میں تغیر و تبدل کرکے اُسے سکول میں کنورٹ کیا گیا۔ اِس طرح ودودیہ سکول کا دوسرا جنم شروع ہوا۔
سیدو شریف کے جو طلبہ سیدو خوڑگئی (چھوٹی ندی) کے شمال طرف رہتے تھے، وہ نئے ودودیہ ہائی سکول منتقل ہوگئے اور باقی ’’سیدو وال‘‘ (سیدو کے رہایشی) شگئی سکول میں رہ گئے، جس کو میٹرک کا درجہ دیا گیا۔
مَیں اور میرا بڑا بھائی یکم اپریل 1952ء کو ودودیہ میں “Enroll” ہوگئے۔ جب کہ ہم دونوں جماعتِ پنجم کے طالبِ علم تھے۔
اِسی سکول سے مَیں نے 1958ء میں میٹرک پاس کیا……اور سوات کے علی گڑھ ’’جہان زیب کالج‘‘ میں داخلہ لے لیا۔
مجھے اِن تینوں اداروں (شگئ سکول، ودودیہ سکول اور جہان زیب کالج) سے بے حد پیار ہے۔ ٭……٭……٭