حضرت علیکالم

سوات کے لبہ کا مستقبل داؤ پر

قارئین کرام، تعلیم کیلئے بنیادی سہولیات فراہم کر نا ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ اس لئے سرکاری سطح پر سکولوں اور جامعات کا جال بچھایا جاتا ہے تاکہ نونہالانِ قوم زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکر مستقبل میں ریاست کی ترقی وخوشحالی میں فعال کردار ادا کرسکے۔لیکن بدقسمتی سے ملکِ خداد میں ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں تعلیم کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔اورستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مختلف حکومتیں تعلیم کے حوالے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا۔ صاحبِ حیثیت لوگوں کے بچے تو بیرونِ ملک جا کر بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے صرف بڑے بڑے سکولوں کے شاندار ماحول کا نظارہ تو کرسکتے ہیں لیکن وہاں پڑھ کر اپنا مستقبل روشن نہیں بناسکتے ۔غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے اگر میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکے تو وہاں طبقاتی نظامِ تعلیم کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اور سرکاری کالجوں کی میرٹ لسٹوں کے آگے غربت کا مارا حصولِ تعلیم کا جذبہ دم توڑدیتا ہے ۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہ نسبت نجی تعلیمی ادارے ہی معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں ۔جس کی اہم وجہ ہمارے منتخب حکومتوں کے نا تجربہ کار اورناہل لوگوں کا محکمۂ تعلیم کا سرپرست بن جانا ہے ۔ جن کے پاس نہ کوئی پلاننگ ہوتی ہے اور نہ پالیسی ۔ قارئین کرام، تبدیلی سرکار نے جب حکومت سنبھالی تو تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کردیا اور ہنگامی بنیادوں پر محکمۂ تعلیم میں اصلاحی کام شروع کیا۔اس منصوبے پر خیبر پختونخواکے بجٹ کا بڑا حصہ لگایا گیا۔ پانچ سالہ دور میں ہر وقت میڈیا پر تعلیمی اصلاحات اور ترجیحات کے دعوے کئے گئے لیکن گذشتہ حکومت کے جاتے ہی تعلیمی ایمرجنسی ڈھیر ہوگئی۔ امسال سالانہ میٹرک امتحانات میں سرکاری سکولوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔ صوبائی حکومت کی تعلیمی اصلاحات اور ترجیحات مؤثر ثابت نہ ہوسکیں۔امسال جماعت نہم اور دہم کے سالانہ نتائج میں سب اچھی پوزیشنیں مہنگی تعلیم بانٹنے والوں نے لیں ۔
قارئین کرام، میٹرک کے بعد کسی طالب علم کا اصل معنوں میں تعلیمی دور شروع ہوتا ہے۔ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور معیاری کالج کا انتحاب کرے اور اسے وہاں داخلہ مل جائے ۔ جہانزیب کالج سیدو شریف سوات، والئی سوات دور کی بہترین تاریخی درس گاہ اور موجودہ دور میں ایک اعلیٰ تعلیم ادارہ ہے۔میٹرک کے بعد سوات کے طلبہ کی سب سے پہلے یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ انہیں جہانزیب کالج میں داخلہ مل جائے اور وہ اس پر فخر محسوس کر تے ہیں۔گذشتہ حکومت نے بغیر کسی مؤثر پلاننگ، زلزلوں سے متاثرہ جہانزیب کالج کی تاریخی بلڈنگ مسمار کرنے اور اس کی جگہ نئی بلڈنگ کی تعمیر پرکام شروع کیا۔ اس وجہ سے کالج میں کلاسز کی تعداد مجبوراً کم کرنا پڑی۔ اس لئے جہانزیب کالج انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال مختلف ڈپارٹمنٹس میں صرف سو ،سو طلبہ کو داخلے دیئے جائیں گے ۔اس فیصلے سے مینگورہ شہراور دیگر علاقوں کے سیکڑوں طلبہ داخلوں سے محروم ہوجائیں گے ۔جس سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا ۔اس فیصلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر کالجز بھی اب داخلہ میرٹ بڑھائے گا ۔ اس فیصلہ سے زیادہ تر سرکاری سکولوں کے غریب طلبہ نہ صرف متاثر ہوں گے بلکہ ان کا تعلیمی کیریئر ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا ۔اس فیصلہ سے طلبہ کے والدین انتہائی فکرمند ہیں کیونکہ طلبہ کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ والدین اپنے خون پسینے کی کمائی سے اٹھاتے ہیں ۔ اگر کسی نا اہل حکومت یاذمہ داران کی وجہ سے کئی سالوں کی محنت بے نتیجہ نکلے گی، تو یہ والدین اور طلبہ کے لئے پریشان کن بات ہوگی ۔
لہٰذا نگرانِ حکومت اور محکمۂ تعلیم اس معاملے کو انتہائی سنجید گی سے لے اور ہنگامی بنیادوں پر میٹرک سے فارغ سیکڑوں طلبہ کے لئے کسی متبال بلڈنگ کا بندوبست کرے تاکہ طلبہ کا مستقبل تباہ ہو نے سے بچ سکے۔ ورنہ اس نقصان کا ازالہ شاید پھر ممکن نہیں ہوگا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں