ساجد علی ابوتلتانکالم

سماجی تہذیب میں ہجرت کا کردار

ہجرت کرنے کی متعدد وجوہات ہیں، لیکن امن و امان کا ناپید ہونا اور تلاشِ معاش اس کے بنیادی مؤجب ہیں۔ ہجرت کرنے کا عمل اُس وقت بھی رونما ہوتا تھا، جب کم آبادی رکھنے والے ابتدائی انسانی معاشرہ کے افراد تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے۔ ہر چند کہ اُن معاشروں کے افراد محض خوراک حاصل کرنے کے لیے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، لیکن بہتر سماجی حالات کی تلاش میں سرگرداں رہے تھے۔ لہٰذا خراب موسمی حالات، مخدوش امنِ عامہ اور خوراک کی عدم دستیابی کی خاطر وہ لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ اس لیے تو کہتے ہیں۔
سوک پہ رضا د ملکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یا د یار د غمہ زینہ
اس اہمیت کے پیشِ نظر بابا فرید الدین گنج شکر نے روٹی کو دین کا چھٹا رکن قرار دیا تھا، اور مشہور نظم گو شاعر نظیر اکبر آبادی نے روٹی کی اہمیت پر نظم تک لکھ ڈالی تھی۔ روٹی کے لیے ہی تو انسان دردر کی ٹھوکریں کھاتا ہے، جو اُن کے لیے ہجرت کرنے کا باعث بنتا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں کی طرح پشتون قوم کے افراد نے بھی اجتماعی اور انفرادی مہاجرت کی ہے، جن میں سے بعض کو ہجرت کرنے کے بعد اچھی خاصی معاشرتی حیثیت بھی ملی ہے۔ مثلاً کشمیر کے پہلے بادشاہ مسلمان، افغان اور پُرانے سواتی تھے۔ اس طرح سواتی یوسف زئیوں میں اینگرو ڈھیرئی کے ملک قادر خان کٹہ خیل کے چھوٹے بھائی داؤد خان نے 1705ء کو ہندوستان میں ریاستِ روہیل کھنڈ کی بنیاد رکھی۔ مزید برآں ہندوستان کے اکثر فلمی دنیا اور ادب سے متعلق مشہور شخصیات اس زمرے میں آتی ہیں۔ غرض یہ کہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں ایک کثیر تعداد افغانوں کی آباد ہے۔ مثال کے طور پر 1907ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کے اجمیر، مارواڑ، راجپوتانہ، پنجاب، کشمیر، بمبئی، بڑودہ، مینو، ملک متوسط برابر، بنگال، اڑیسہ،اودھ اور بہار کے متحدہ ممالک وغیرہ میں افغانوں کی تعداد کروڑوں میں تھی( د پختنوا اصلیت او د ھغوی تاریخ)۔ اس طرح 1947ء تک مہاجرت کا یہ سلسلہ جاری تھا، تا وقت یہ کہ کراچی ہجرت کا موزون ٹھکانا ٹھہرا۔ اس ضمن میں مترجم مرزا اشفاق بیگ ’’پاکستان کی قومیتیں‘‘ کے صفحہ نمبر 13پر روسی مصنف یورو گنگوفسکی (جو کتاب کا خالق ہے) کا قول نقل کرتا ہے: ’’ 1947ء کے بعد کراچی میں پشتونوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھی۔ یہ زیادہ تر مزدوروں پر مشتمل ہے۔1957ء میں ان کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ ملک کے قریہ قریہ سے لوگ بڑی شہروں اور خصوصاً کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس بارے میں فقط برہ درشخیلہ کی مثال ہی کافی ہے۔ جہاں اگر ایک طرف بے شمار لوگ روزگار کی خاطر باہر سے آئے ہیں، تور وزگار ہی کی تلاش میں یہاں کے لوگ کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد، کوئٹہ، لاہور، اوکاڑہ، اسلام آباد اور پشاور وغیرہ گئے ہوئے ہیں۔ جن کی اکثریت وہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ مہاجرت کا یہ سلسلہ تو ابتدا ہی سے چلا آ رہا تھا اور پچھلی سات دہائیوں سے لوگ خصوصاً کراچی جا رہے ہیں، لیکن 70ء کی دہائی میں جب گاؤں کا زرعی ڈھانچا تبدیل ہونا شروع ہوا، پیسوں کی ریل پیل بڑھ گئی اور چھوٹے کسانوں اور اہلِ حرفہ جو پرانے نظام سے وابستہ تھے، کو جان کے لالے پڑگئے، تو ہجرت کا پہیہ حرکت میں آگیا اور سیکڑوں کی تعداد میں رفتہ رفتہ یہ لوگ یہاں سے مہاجر ہوئے۔
قارئین، یہاں اگر فلاحی تنظیم ’’انجمنِ غربا 1976ء‘‘ کا جائزہ لیا جائے، تو اس کے کل 416 افراد اور اُن کے خاندانوں کا آدھے سے زیادہ حصہ مہاجر ہوا۔ دہقانوں سمیت بعض کسب گروں کے 80 فی صد افراد اور اُن کے خاندان یہاں موجود نہیں۔
وکیل حکیم زئی کہتے ہیں: ’’ پشتون قوم میں علاقے کے حوالے سے ایک اور قبیلہ بن رہا ہے بلکہ بن گیا ہے جو کراچی میں بسنے والے پشتون ہیں۔ ان میں ہر قبیلے، کسب، لہجے اور علاقے کے لوگ شامل ہیں۔‘‘ یقیناًان میں سماجی حیثیت اور خاندانی وقار نسلی نہیں بلکہ ذاتی صلاحیت اور مال ان کی حسبی پہچان ہے۔ گرچہ اُن کے اخلاقی اقدار کا میناروہ نہیں رہا جو گاؤں میں تھا۔ البتہ معاشرتی تفاوت ان میں ختم ہوچکی ہے۔ حکیم زئی مزید کہتے ہیں: ’’ان میں سے ہر ایک فخر سے اپنے آپ کو پٹھان کہتا ہے اور اس نسبت سے اُن کا بڑا گاؤں یا ٹاؤن ’پٹھان کالونی‘ کہلاتا ہے۔‘‘ جس کی بڑی وجہ پشتو زبان سے اُن کی والہانہ محبت اور پشتون قوم سے لگاؤ ہے۔ شہروں میں آباد گاؤں کے اکثر لوگ اچھے خاصے کاروبار کے مالک نہیں بلکہ وہ آسودہ حال بھی ہیں۔ گو کہ ان میں سے بعض افراد آتے جاتے ہیں لیکن اکثریت اُن کی وہاں مستقل سکونت رکھتی ہے، جس میں سے بعض نے مختلف شعبۂ زندگی میں نام پیدا کیا ہے۔ مثلاً لاہور میں مختار احمد سواتی، حیدر آباد میں سید علی شاہ، پشاور میں شمس الرازق، سیراج محمد اور سرور گل اور کراچی میں حاجی مرجان، خان زادہ مرحوم، شیر محمد خان، خالد، گل نواب، کامل اور اکبر علی (مؤخرالذکر درشخیلہ کے امیر ترین تاجر غلام سرور لالا کا پوتا ہے)۔
اس طرح سرکاری ملازمت کے حوالے سے بھی کئی افراد قابلِ ذکر ہیں لیکن ضبطِ تحریر میں نہ لانے کی وجہ کالم کی تنگ دامنی ہے۔ اب تو گاؤں کے یہ پردیسی وہاں مقامی بنتے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی تین نسلیں وہاں پیدا ہوئیں، جو ان ہوئیں، یہاں تک کہ اُن کی قبریں بھی وہاں تعمیرہوئیں۔ تیسری نسل کے سینے میں وطن فقط روایتوں کی حد تک زندہ ہے۔ بہر حال جتنے لوگ گاؤں سے مہاجر ہوئے ہیں، اُن سے کہیں زیادہ اور علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں، یعنی مہاجرت کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ گرچہ ہجرت مجبوری میں کی جاتی ہے، مگر یہ ایک فطری عمل ہے جو ہر زمانے میں جاری و ساری رہتا ہے۔ پس جہاں جہاں امن اور روزگار کے مواقع ہوں گے، وہاں لوگ سماجی زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔ اب تو ویسے بھی درشخیلہ اپنے بازار کی وجہ سے ٹاؤن کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی چودہ ہزار سے زیادہ ہے۔ اب قرب وجوار کے مزید لوگ یہاں آباد ہورہے ہیں۔ اس رفتار سے اس کی آبادی 2025ء تک پچیس ہزار سے بھی تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ کثرتِ آبادی اور مہاجرت کی وجہ سے اگر ایک طرف یہاں جدید سہولیات میسر آرہی ہیں، کاروبار اور تجارت کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور لوگ جدت پسند ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف یہاں پرانی اقدار نئی طرزِ معاشرت کے سامنے ملیامیٹ ہو رہی ہیں۔ پشتونولی اور جرگہ نظام کا قلع قمع ہو رہا ہے اور کثرت کے باوجود اتفاقِ رائے اور اجتماعیت کا تصور نیست و نابود ہو رہا ہے۔ اس حالت میں جب ہمارے پیر جاگیردارانہ نظام میں ہیں اور ہاتھ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف لپک رہے ہیں، ہمارے اخلاق اور نفسیات کا خراب ہونا اتنا اہم مسئلہ نہیں رہا۔ اس کیفیت میں عدم برداشت، جذباتیت اور ایک دوسرے کو کوسنا ایک لازمی امر ہوگیا ہے۔ یعنی دو نظاموں کے بیچ میں مخلوط خاندانی ’’سیٹ اَپ‘‘ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔ لامحالہ لوگوں کو مادیت اور انفرادیت کی فکر ایک متعدی مرض کی شکل میں لاحق ہو رہا ہے۔ اگر ہمیں جدیدیت کے اس طوفان کا مقابلہ کرنا ہے، تو جدید معاشرے کی خوبیوں کو لیں گے اور اس کی برائیوں کو رکھ چھوڑیں گے۔ بصورت دیگر اگر اس کے سامنے دیوار بننے کی کوشش کریں گے، تو محض ریت کی دیوار ہی ثابت ہوں گے۔ ہم اس حالت کو روک بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ زندگی مسلسل چلتی ہے اور کوئی نظام ایسا نہیں جو مستقل اور دائمی شکل اختیار کرے۔ لہٰذا ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ پس جو لوگ وقت کے نبض شناس ہوتے ہیں وہی فی زمانہ ہوشیار اور عقل مند کہلاتے ہیں۔
آمدم برسر مطلب، انسانی تہذیت اور سماج میں ہجرت کا بڑا عمل دخل ہے۔ کوئی انسان کسی ایک جگہ محکوم ہوتا ہے، تووہی شخص ہجرت کرنے کے بعد کسی دوسرے مقام کا حاکم بن جاتا ہے۔ یہی مثال ہم معاشرتی کسب اور حیثیت پر بھی صادر کرسکتے ہیں۔ بقولِ حضرت علیؓ: ’’تمام انسان نسب کے حوالے سے ایک خاندان کے افراد ہیں۔ البتہ حسب کے حوالے سے ان میں فرق ہے۔‘‘ جبھی تو لوگ سماجی حیثیت، روزگار اور امن و امان کی خاطر اپنی ماں جیسی مٹی کو چھوڑ کر دیارِ غیر میں پناہ لیتے ہیں، لیکن ماں آخر ماں ہوتی ہے، اس وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو فرزندوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اے اللہ! گاؤں کے پردیسیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے اُن تمام مہاجروں کی مدد فرما جو اپنے علاقوں سے ہجرت کرگئے ہیں،آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں