احمد سعید کالم

پاکیزگی اور نفاست کا حقیقی تصور

آج کل اخباروں میں پاک صاف اور کلین اینڈ گرین پاکستان کا چرچا ہے۔ سرکاری اہلکار اور عوامی نمائندے زور و شور سے صفائی مہم چلا رہے ہیں۔ جس کو بھی دیکھو ایک بڑی او ر لمبی جھاڑو پکڑے صفائی کر رہا ہے اور اخبارات اور میڈیا کے لیے تصویریں بنوا رہا ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔
ویسے پاکستان میں ہم نے ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر ہر مارشل لا اور فوجی انقلاب میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ مارشل لا والے صفائی، نظافت اور پاکیزگی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ہر کنٹونمنٹ ایریا اس کی واضح اور زندہ مثال ہے، لیکن اتنے مارشل لاؤں، فوجی اور سول حکومتوں کی ہزار کوششوں کے باوجود گندگی اورغلاظت ہے کہ بڑھتی اور پروان چڑھتی جا رہی ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں،تو سب سے پہلے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں آبادی کی اکثریت مسلم عوام پر مشتمل ہے اور اسلام نے طہارت و نظافت پر جتنا زور دیا ہے، اتنا کسی اور مذہب اور مکتب فکر نے نہیں دیا۔
قرآن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔‘‘یہ آیت مدینہ منورہ کی مضافاتی بستی قبا کے باشندوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، تو اللہ کے رسولؐ نے اہلِ قبا سے دریافت فرمایا کہ تم صفائی اور پاکیزگی کا کون سا ایسا طریقہ اختیار کرتے ہو؟جس پر اللہ تعالیٰ کو اتنا پیار آیا ہے۔ تو انہوں نے جواباً کہا کہ ہم حاجتِ ضروریہ سے فراغت کے بعد پانی سے استنجا یعنی صفائی کرتے ہیں۔
خود حضورؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’النظافتہ من الایمان‘‘ یعنی طہارت و نظافت ایمان کا حصہ ہیں۔‘‘
دینِ اسلام نے انسانی تہذیب و تمدن کو جو نشو و نمااور ترقی دی، اسی کا نتیجہ ہے کہ صرف ظاہری صفائی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ باطنی صفائی یعنی قلب و روح اور فکر و خیال کی صفائی پر نہایت زور دیا گیاہے۔اس کو ظاہری صفائی پر فوقیت دی ہے۔ قلب و روح کی صفائی اور نظافت کے سلسلے میں جو تفصیل ہے کہ باطن میں قلب و دماغ ہر قسم کے فاسد خیالات، کفر و شرک، غرور و تکبر، انانیت و خود پرستی، حب مال وجاہ، نفسانی خواہشات،نمود و نمائش اور ظلم و طغیان کے تمام جذبات و احساسات سے پاک و صاف ہو۔ جس کے نتیجے میں قول و فعل کا تضاد، دروغ بیانی، فریب اور دھوکا دہی، بغض و حسد اور کینہ پروری کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں اور اس کی جگہ انسانیت کی محبت و ہمدردی، دوسروں کے لیے ایثار و قربانی، صبرو قناعت، حلال و حرام کی تمیز، حق و صداقت کا اظہار و اعلان، حقوق و فرائض کی ادائیگی اور زندگی میں احسان کا رویہ ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اور پھر ایسا با شعور انسان اپنے آپ، اپنے گھر بار، اپنے ارد گرد ، اپنے محلے اور بستی میں گندگی اور غلاظت برداشت نہیں کرتا۔ جب تک معاشرے اور عوام میں یہ شعور و ادراک پیدا نہیں ہوگا، اس وقت تک ظاہری صفائی اور گندے ماحول سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
ایسے لوگ جو شہروں کی پوش اور اعلیٰ سوسائٹیوں میں رہائش پذیر ہیں، ان کی بستیاں اور کالونیاں صفائی ستھرائی کے لحاظ سے بہترین ہیں، لیکن 72سال سے ملک میں کرپشن، لوٹ مار، رشوت، کمیشن، اقربا پروری کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ ان پاک صاف بستیوں کے مکینوں کی باطنی نجاست اور غلاظت کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے اسلام نے ظاہری نفاست سے پہلے قلبی اور باطنی نفاست پر زور دیا ہے۔ ’’تھری پیس سوٹ‘‘ میں ملبوس، اکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ روانی سے انگلش بولنے والے مغربی تہذیب و تمدن کے نمائندہ یہ افراد اس ملک کے سیاسی، معاشی، سماجی اور معاشرتی انحطاط و تنزل کے ذمہ دار ہیں۔
وہ ملک جو بڑے ارمانوں، آرزوؤں اور امیدوں کے ساتھ وجود میں آیا، جس میں اپنے دین، اپنی تہذیب و تمدن، اپنے شان دار ماضی اور روایات کے ذریعے دنیا کی ایک سپر طاقت بننے کے تمام امکانات موجود تھے، وہ ملک آج ان پاک صاف نام نہاد اشرافیہ کی ذاتی خواہشات کا شکار گاہ ہے۔ کبھی کوئی طالع آزما عوام کو پُرفریب نعروں اور جھوٹے وعدوں سے دھوکا دے کر بر سرِ اقتدار آتا ہے اور ملکی وسائل لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثے بڑھاتا ہے اور کبھی کوئی اور۔ 72 سال سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور روز بروز اس اخلاقی اور روحانی انحطاط و تنزل کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ معاشرے میں بد امنی ، انتشار و افتراق، لوٹ مار اور ظلم و طغیان کے مظاہر بڑے پیمانے پر ظاہر ہورہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں اور بر سرِ اقتدار طبقات کو اس کا احساس تک نہیں۔ اول تو اپنی تعلیمی و تربیتی پس منظر اور اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں کہ عوام کی تعلیم و تربیت اور ذہنی و فکری پستی کے علاج کے لیے رہنمائی کر سکیں۔ کیوں کہ وہ خود اس گندے تالاب کے باسی اور مغربی تہذیب و تمدن کے گندے انڈوں سے نکلے ہوئے چوزے ہیں۔
حالاں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بائیس کروڑ عوام میں جو دردِ دل رکھنے والے، ان اخلاقی کمزوریوں اور مسائل کا ادراک رکھنے والے سنجیدہ، خوفِ آخرت کا احساس رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اس کو ختم کرنے اور صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے زوردار آواز اٹھائیں۔
ورنہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں