حضرت علیکالم

پولیس حکام کی توجہ درکار ہے

سوات میں امن وامان کی صورتحال مکمل طو ر بہتر ہوچکی ہے۔ سوات کی معیشت نے اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ کشیدہ صورتحال کے بعدسیاحوں کا بڑی تعداد میں سوات آنا اس بات کی دلیل ہے۔ سوات کا میڈیا بھی سوات میں امن کے گن گا رہا ہے، جس کی وجہ سے سیاح بے خوف و خطر سوات کی طرف راغب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قارئین کرام، تقریباً ایک ماہ سے سوات کے مختلف تھانوں اور چوکیوں کی جانب سے ناکہ بندی میں تیزی آئی ہے۔ یہ سلسلہ عام شاہراہوں سے لے کر بند گلیوں میں قائم چوکیوں تک پھیل گیا ہے۔ گذشتہ روز اتفاقاً بارامہ چوکی کے سامنے سے گذرہوا، تو وہاں عام روٹین سے زیادہ رکشوں، موٹرسائیکلوں اور عام گاڑیوں کا رش دیکھنے کو ملا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پولیس ناکہ بندی کے دوران میں کسی کے پاس ہیلمٹ نہیں، تو کسی کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں اور کسی کی گاڑی کے کاغذات نہیں۔ جس پر چوکی انتظامیہ نے اُن کی خلاف کارروائی عمل میں لائی تھی۔ اب ڈرائیور ز اپنے لیے ضمانتی ڈھونڈ رہے ہیں۔
یہ ایک عجب سلسلہ سیاحتی مقام میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
قارئین کرام، مرغزاراور جامبیل سنگر مینگورہ شہر کے قریب ترین خوبصورت اور سیاحتی علاقے ہیں۔ سردی کے موسم میں برف باری زیادہ ہونے سے یہاں کے پہاڑ برف کی سفید چادراوڑھ لیتے ہیں اور دلکش مناظر یہاں کی خوبصورتی کو دو گنی کر دیتے ہیں۔ مینگورہ شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے مقامی اور باہر سے آنے والے سیاح برف باری دیکھنے کے لیے ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ جامبیل، چنار اور سنگر جانے والی ر وڈ پر کوکارئی تھانہ قائم ہے۔ مذکورہ علاقے کوکارئی تھانے کی حدود میں آتے ہیں۔ تھانے کے سامنے مین روڈ پر اکثر پولیس چیکنگ پر معمور ہوتی ہے جو کہ اُن کے فرائضِ منصبی میں آتا ہے۔ مگر بعض اوقات سیاح اور عام لوگ پولیس کے رویے سے گلہ کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ کیوں کہ چیکنگ کے دوران میں پولیس کا رویہ یکسر درشت اور سخت ہوجاتا ہے۔ کوکارئی پولیس جامہ تلاشی کے بعد کچھ نہ ملے، تو گاڑی مالک سے ڈرائیونگ لائسنس کے متعلق ضرور پوچھتی ہے۔ پھر لائسنس نہ ہونے کی صورت میں گاڑی تھانے میں بند کر دیتی ہے یاضمانت پر چھوڑ دیتی ہے۔ نتیجتاً اگلے روز پھر ڈرائیور حضرات عدالتوں کے چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ہی مجسٹریٹ کی عدالت میں بھاری جرمانے بھی بھرتے ہیں۔ اکثر اوقات ’’پولیس‘‘ ڈرائیوروں سے پیسے کے عو ض چھوڑ دینے کی آفر بھی کرتی ہے۔ جب کہ کوکارئی پولیس اہلکار اکثر سادہ کپڑوں میں چیکنگ کرتے ہیں اور تھانے کے اندر بھی بغیروردی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ یہ شکایات کئی بار کوکڑی چوکی کے متعلق بھی ملیں کہ یہاں مرغزار آنے جانے والے مقامی افراد اور سیاحوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔
بحیثیتِ ایک عام شہر ی، ہمیں قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا چاہیے، بلکہ قانون تو اصل میں ہے ہی شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے۔ اور قانون کا احترام ہم سب پر فرض ہے، لیکن یہ نہ ہو کہ قانون کے نام پر شہریوں کو گھسیٹا جائے۔ یہاں ٹریفک قوانین موجود ہیں اور اُن قوانین کو لاگو کرنے کے لیے محکمہ ٹریفک پولیس اپنے تمام تر وسائل اور مخصوص تربیت یافتہ سیکڑوں اہلکاروں کے ساتھ موجود ہے۔یہ محکمہ شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیگر اہم مقامات پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔یا تو شاید ہوسکتا ہے کہ پولیس انتظامیہ محکمہ ٹریفک سے نالاں ہو اور اس لیے انتظامیہ نے تھانوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہو۔ یا پھر تھانوں میں تعینات لوگ اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہوں۔ اگر انتظامیہ نے ٹریفک کے اختیارات تھانوں کو سونپ دیے ہیں اور پھر پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ ٹریفک کے پیچھے لگ جائے، تو پھر امن و امان کی ذمہ داری کس کو سونپنی پڑے گی؟
اس تحریر کے توسط سے سوات کے عوام، پولیس انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ یا تو محکمہ ٹریفک کو ختم کرکے ٹریفک کے سارے اختیارات تھانوں کے حوالے کیے جائیں، یا پھر ٹریفک قوانین ٹریفک پولیس تک ہی محدود رکھے جائیں۔جہاں ٹریفک پولیس کی ضرورت ہو، وہاں ٹریفک اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔ تاکہ متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے پوری کریں۔ اگر پولیس ہر کسی سے اسی طرح اُلجھے گی، تو اس سے عوام کے ذہنوں میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔
لہٰذا اس تحریر کے ذریعے بالا افسران سے اپیل ہے کہ ایسے اقدامات کی روک تھا م میں اپنا کردار ادا کریں۔ عوام اور پولیس کے درمیان اچھے روابط وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ویسے بھی مضبوط پولیس ہی سب کے حق میں ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں