کالممحمد شیر علی خان

درشخیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں (تبصرہ)

سچی لگن، محنت اور جذبوں کی صداقت انسان کوفن کی معراج پر پہنچاتا ہے۔ پھر تومذکورہ انسان رہتی دنیاتک یادرکھا جاتا ہے۔
آج میرا موضوعِ سخن ساجد ابوتلتاند کی کتاب ”درشخیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں“ ہے۔ موصوف کی یہ کتاب پڑھنے لائق ہے۔ اس میں ہرطبقہئ فکرسے تعلق رکھنے والے افرادکے لیے ان کی پسند کا مواد موجود ہے۔
مصنف کالم نگاری، انشاپردازی، فلسفہ اور تاریخ سے رغبت کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں انوکھی پہچان رکھتے ہیں۔ مطالعہئ بیسیار کا نتیجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے جذبات، احساسات اور مشاہدات کو قلم کے سپرد کرتے ہوئے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ کتاب اگرچہ ایک علاقے (درشخیلہ) تک محدود ہے، لیکن سوات کے باسیوں کواس میں اپنے کام کا مواد بہر حال مل جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرحوم تصدیق اقبال بابو لکھتے ہیں: ”ساجد خان کاکارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے گاؤں درشخیلہ کا دریچہ سب کے لیے کھول دیا ہے۔ جو بظاہر تو اس کے گاؤں کاتہذیبی، سماجی اورتاریخی گہوارہ ہے، لیکن اس میں سوات بھرکی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور تمدن کی تمام وہ نشانیاں موجود ہیں جو ہر گھر، ہر گاؤں اور ہر پختون خاندان کااثاثہ ہے۔“
یہ کتاب اہلِ علاقہ کے لیے خوشی کی باعث ہوگی۔ کیوں کہ اس میں گذشتہ زمانے کے حالات و واقعات کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ اس میں تاریخ، معیشت، ثقافت، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، عقائد، علوم و فنون، ذاتیں اور نسلیں، انتظامیہ، عمارات، خانقاہیں، کسب، خوشی و غمی، امیر و غریب، خان و دہقان، مالک و مزدور، تعلیم و تربیت، کھیل تماشے، صحت غرض ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اگرتحقیقی حوالے سے دیکھاجائے تو یہ ایک بہترین کام بھی ہے اورکئی حوالوں سے تحقیقی لوازمات پرپورا اترتا ہے۔ موصوف نے درشخیلہ کو موضوعِ تحقیق قرار دے کر درحقیقت سوات کا سماجی نقشہ کھینچا ہے۔ مذکورہ کتاب نہ صرف تحقیق بلکہ تحقیق پر ایک احسان بھی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر بدر الحکیم حکیم زئی صاحب لکھتے ہیں: ”مَیں سمجھتا ہوں کہ ساجدخان کی یہ تحقیق نہ صرف آرکیالوجی، سوشیالوجی، انتھراپالوجی، اقتصادیات، تاریخ، تہذیب و ثقافت، سیاسیات اور ادبیات کی تحقیق کے لیے حوالے کاایک معتبرمآخذثابت ہوگی بلکہ ساتھ ہی نئی تحقیقات کے لیے ٹھوس بنیادفراہم کرے گی۔“
یہ کتاب مصنف کااپنے گاؤں اور گاؤں کے باسیوں سے شدید محبت کا اظہار ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بہترین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاامتیاز ہر اُس شخص کو جگہ دی ہے جس نے کوئی کاکردگی یا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ غرض مصنف نے گہرائی اور گیرائی سے تمام حالات و واقعات کا بہ نظرِ غائرجائزہ لیا ہے۔ اس بارے میں پرویش شاہین لکھتے ہیں: ”میرے خیال میں مصنف آسمان پر نہیں چڑھا ہے۔ ورنہ اگر چاہے تو بندہ عجیب و غریب ہمت کا سکندر اور حوصلے کا پہاڑ ہے۔ جو آسمان پر بھی چڑھ سکے گا۔ ان کا یہ کام پچھلے وقتوں کا آئینہ ہے۔ یہ ایک انسائیکلوپیڈیا اور آرکائیوز ہے۔“
ساجد ابوتلتاند کو قومی زبان سے دلی لگاؤ اور والہانہ محبت ہے، تبھی تو زبان پر پورا عبور رکھتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہوئے لفظوں کے دریچے سے کھولتے ہیں۔ اُن کی تحریر میں شہد جیسی مٹھاس، دریا جیسی روانی اور سمندر جیسی گہرائی پائی جاتی ہے۔ خیرالحکیم حکیم زئی لکھتے ہیں: ”ساجد کمال کا بندہ ہے جو لکھتا ہے، کمال لکھتا ہے۔“
مصنف کی یہ کاوش نسلِ نو کے لیے سوغات سے کم نہیں۔ اس دریچے سے وہ اپنی ماضی میں جھانک کرمستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں۔ نسلِ نو جو عموماً ماضی سے کوئی سروکار نہیں رکھتی، اس دلچسپ کتاب کے ذریعے اپنے اسلاف کے کارناموں اور خوبیوں سے خوب روشناس ہوسکتے ہیں اور اُن کے نقشِ قدم پر چل کر کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
مصنف نے وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقوقِ نسواں کا بھی خیال رکھا ہے اور گاؤں کی مثالی خواتین کاتذکرہ کرتے ہوئے اُن کی بھرپورحوصلہ افزائی کی ہے۔ اس بارے اُمت ساجد یوں رقم طرازہیں: ”ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے اس کتاب میں حقوقِ نسواں کی جھلک پوری آب و تاب سے جلوہ گرنظرآتی ہے۔“
نثار احمد گران اس کو ایک منفرد اور لاجواب کتاب قرار دیتے ہیں اورپرویش شاہین صاحب کتاب کو ابوتلتاند کی بہترین کاوش، اہلِ سوات کی داد کے مستحق اور مبارک باد کے قابل گردانتے ہیں۔
غرض اہلِ سوات کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ اس خدمت کے صلے میں ان شاء اللہ اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آخر میں اللہ تعالا سے دست بدعا ہوں کہ مصنف کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشے اوراُنہیں زندگی کے ہر میدان میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں