کالممحمد شیر علی خان

حکیم اللہ بریالے، شخصیت و فن

دلتہ خو پہ مینہ پسی سترگی د سڑی اوزی
مینہ خو ویشی د ھغہ پوری غرہ د سر خلک
گندمی رنگت، میانہ قد، ہنستا چہرہ، ہر چیز کو ٹٹولتی ہوئی خوب صورت آنکھیں، چوڑی پیشانی، دیدہ زیب کان، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، داڑھی چٹ، بڑی کالی مونچھیں، باتوں میں رکھ رکھاو، محفل آرا شخصیت، جہاں بیٹھتے ہیں…… محفل سج جاتی ہے۔ جی ہاں! یہ ہیں ہمارے حکیم اللہ بریالےؔ اور چھوٹوں کے ’’نانا‘‘۔
موصوف پیشے کے لحاظ سے پولیس کانسٹیبل ہیں، لیکن گاؤں (برہ درش خیلہ) میں ’’افغان گنڈل زائے‘‘ کے نام سے ایک ٹیلرنگ دکان بھی چلاتے ہیں۔ ان کا اصل اور قابلِ فخر کام پشتو زبان وادب کی خدمت اور فروغ ہے۔
بریالےؔ صاحب کے اب تک دو شعری مجموعے ’’زرغون فکرونہ‘‘ اور ’’جنگ ئی دگودر غاڑے لہ یوڑو‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ دونوں مجموعوں میں اچھے معیار کے اشعار موجود ہیں۔
اول الذکر مجموعے میں روایتی مضامین جب کہ ثانی الذکر میں پختگی، مضبوطی اور توانائی بدرجہ اتم موجود ہے۔
آج کی نشست میں ان کے دوسرے شعری مجموعے ’’جنگ ئی د گودر غاڑے لہ یوڑو‘‘ پر بحث کریں گے۔ کیوں کہ اس میں اشعار بڑے عمدہ اور دل کو چھو لینے والے ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ذیل میں دیے جانے والے اشعار ملاحظ ہوں:
زہ پختونستان پختون خوا سہ کووم
نوم دی پری دوزخ وی خو چی امن وی
شونڈی می دی تراڑی تراڑی تلی وی
چاودے می دی مخ وی خوچی امن وی
مذکورہ بالا قطعہ موجودہ حالات کا بھر پور عکاس ہے۔
اس طرح حالات کی زبردست عکاسی کرتے ہوئے ایک شعر میں یوں گویا ہیں:
جانانہ گل گل سوات اوس ھغہ گل گل پاتی نہ دے
لمنہ د اسمان د گولو سرہ شی چی ماخام شی
بریالے باہمت بھی ہیں۔ اپنے ارد گرد اور ماحول پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنی مٹی کو اغیار کے قبضے میں دینا نہیں چاہتے۔
مونگہ لا خپل گریوان شلیدوتہ داسی چرتہ پریگدو
مونگ لا د پت پختو جگی شملی ایخی دی
اس طرح بریالے صاحب رشتوں کے تقدس کے زبردست قسم کے حامی ہیں۔ ماں کو عظمت کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کے سائے میں اپنی پوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ تبھی تو وہ اپنے اس جذبے کو شاعری کا لبادہ ان الفاظ میں اوڑھا رہے ہیں کہ
خدایہ د مور د دعا سیورے می پہ سر ساتہ
ماد دی لوئے عظیم نعمت چرتہ محرومہ نہ کڑی
یا خدایہ دا سوال می پہ خپل دربار کی ھم اومنہ
دپلار پہ حقلہ د دعا غیگہ می شومہ نہ کڑی
دیہی علاقے میں رہایش پذیر بریالے کی شاعری میں دیہاتی رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے، ذرا یہ دو اشعار پڑھ کر دیکھیں:
مونگ لا د ٹانٹونہ پرپرکی جوڑولے شو
مونگ لا د شوتلونہ فونکی اوھم بنگڑی کوو
مونگ لا د سرمنونہ کٹونہ اوکٹکی بنڑو
مونگہ لا بوجونو تہ د سپینو کٹوری کوو
موصوف نے ایک ایسی شاہکار نظم بھی لکھی ہے جس میں ہمارے اسلاف، تہذیب، ثقافت اور بچپن کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہماری روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیا اور اوزار وغیرہ کے وہ نام موجود ہیں، جن سے ہماری نئی نسل شاید آگاہ نہیں…… لیکن موصوف نے ان ناموں کو زندہ و جاوید رکھ کر ہم پر گویا احسانِ عظیم کیا ہے، ملاحظہ ہو:
مونگ لا حجرہ اڑہ کٹ بوج بالخت ساتو
مونگ لا قدر اوس ھم دشملی او د پٹکی کوو
مونگ لا پہ کورونو کی دخٹو گڑوبی کوو
حکیم اللہ بریالے کی شاعری میں تخیل کی بلندی، فکر کی گہرائی اور پختگی پائی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے ان کا کلام ہر زمانے میں دعوتِ فکر ہی دے گا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں