کالممحمد شیر علی خان

کچھ گاؤں سخرہ کے بارے میں

زندہ اقوام اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرکے اس سے نہ صرف اپنا حال سنوارتی ہیں …… بلکہ مستقبل کو منور کرنے کی سعی اور کوشش بھی کرتی ہیں۔
سب ڈویژن مٹہ سے 25 کلومیٹر کی مسافت پر واقع گاؤں سخرہ تک پہنچنے کے لیے زگ زیگ شکل کی سڑک جاتی ہے، جس کے دونوں جانب خوب صورت، دل کش اور سحر انگیز نظاروں سے لطف اندوز ہونا پڑتا ہے۔ پورا گاؤں آڑو، املوک اور سیبوں کے باغات کے بیچوں بیچ ایک خوب صورت نظارہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی مشہور فصلیں، مکئی، گندم، سبزیاں، پھول اور پھل ہیں۔ گاؤں کے اردگرد بلند و بالا پہاڑوں کا حصار ہے، جس نے سبزے اور جنگلات کی ایک طلسماتی دنیا بنا رکھی ہے۔ یہاں کا موسم گرمیوں میں خوش گوار جب کہ سردیوں میں انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ مشہور تفریحی مقام گبین جبہ جاتے ہوئے گاؤں سخرہ کو کراس کرنا پڑتا ہے، اور عموما سیاح سخرہ بازار میں ہی خریداری کرتے ہیں۔
نام ”سخرہ“ کے بارے ممتاز محقق و تاریخ دان خیرالحکیم حکیم زے صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”سخرہ“ اصل میں ”ساکا“ ہے، جو ایک قوم کا نام ہے جس نے یہاں حکومت کی ہے۔ یہ نام اُن کے نام پر رکھا گیا ہے۔ مزید کچھ یوں لکھتے ہیں ساک……رہ…… ان دونوں الفاظ کاکچھ یوں مطلب ہے ”ساک“ یعنی گاؤں، اور ”رہ“ یعنی مٹی۔”ساکان خاورہ“ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ک، خ میں تبدل ہوگیا اور اس طرح ”سخرہ“ بن گیا۔
شیخ ملی ویش کے مطابق سخرہ 24 روپے دفترجب کہ دو پلو ”بر“ اور ”کوز پلو“ پر مشتمل ہے۔ بر پلو 9 روپے جب کہ کوز پلو 15 روپے دفتر ہیں۔
یہاں محمد (مامت خیل) یا (محمد خیل) کے بیٹے میرو کی اولاد خماری خیل اور نیک نام خیل کی ذیلی شاخیں ”بنگی خیل“، ”فاتح خیل“، ”سرہ باجا خیل“ اور ”طاوس خیل“ رہایش پذیر ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں میاں گان، سیدان، ملیان، صاحب زادگان، گجر اور دوسرے بہت سے قبایل رہایش پذیر ہیں۔ یہاں کے مشہور و معروف شخصیات میں بختیار ملک، باجوڑی ملک، محمد امین خان، تاج محمد خان ملک، امیر المعروف صدر صاحب خرکئی، حاجی غلام اکبر خان وغیرہ جیسی قد آور شخصیات گزری ہیں۔
مستقل ویش 1926ء میں میروخیل کے حصے میں پانچ گاؤں آئے، جن میں ایک راقم الحروف کا گاؤں برہ درشخیلہ 39 روپے، نوخارہ اور گڑھئی8،8 روپے جب کہ لنڈی 4 روپے دفتر میں تقسیم ہوگئے۔
گاؤں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے ہائیر سیکنڈری سکولز اور بشمول مضافات پانچ، چھے پرائمری سکول موجود ہیں اور تین پرائیویٹ سکول بھی بچوں اور بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔
صحت کے حوالے سے اگر بات کی جائے، تو یہاں ایک ”بیسک ہیلتھ یونٹ“ بھی موجود ہے جو 10 ہزار آبادی والے اس گاؤں کے لیے قطعاً کافی نہیں۔
میرے ساتھی سکندر حیات خان کے مطابق یہاں کی تعلیمی حالت اچھی اگر نہیں، تو تسلی بخش ضرور ہے۔ اعلا تعلیم یافتہ لوگوں میں ڈاکٹر سلمان احمد، آفتاب عالم خان، احسان اللہ صاحب، ریاض خان ایڈوکیٹ، رفیع اللہ، جلال خان، واجد خان اور افسر نواب وغیرہ شامل ہیں۔
سیاست میں بھی سخرہ کے لوگ دلچسپی لیتے ہیں لیکن صرف علاقائی سیاست تک۔ آج کل گاؤں کے چیئرمین محمد نعیم خان المعروف غٹ خان جب کہ وائس چیئرمین عدالت خان ہیں۔ تاہم سید منیر، سلیم خان، عمر زادہ، کرم زادہ، جاوید اقبال، فضل کرم، خائستہ محمد بابو صاحب، سیف اللہ صاحب اور جہان صاحب وغیرہ جیسے جہاں دیدہ اور قابل لوگ موجود ہیں۔
شعر و ادب کے حوالے سے اگر بات کی جائے، تو کثیر آبادی والے اس گاؤں میں چند ہی شعرا موجود ہیں۔ ادبا کا تو نام و نشان تک نہیں۔ اب تک شیر زادہ ساجد کے دو پشتو شعری مجموعے ”ٹالئی“ اور ”چغہ“ منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ امیر زیب سر خیلی صاحب کی نثری کتاب ”بحثونہ د ہوا د چپو“ موجود ہے۔ تاہم اظہار اللہ ہلال اور داؤد جان جیسے شعرا بھی ادب سے لگاو رکھتے ہیں۔
گاؤں سخرہ والی بال کے کھیل میں علاقائی طور پر کافی شہرت رکھتا ہے اور نامی گرامی کھلاڑی پیدا کرچکا ہے۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے، تو عبداللہ، محمد کمال اور عالم زیب جیسے کھلاڑیوں نے اس کھیل کو فروغ دیا ہے۔ دوسری طرف سکندر حیات، محمد سہیل، گوہر خان، حبیب اللہ وغیرہ جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی آج بھی موجود ہیں جو اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ تاہم نئی نسل کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ والیِ سوات کے زمانے میں یہاں ایک قلعہ بھی تھا جو آج کل سٹیڈیم میں تبدیل ہوچکا ہے، جس سے کھیل اور کھلاڑی کو آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔
اس تاریخی، سیاسی، سماجی و ثقافتی گاؤں پر ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے، تاہم یہ کام اہلِ سخرہ پر چھوڑتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں