کالممحمد شیر علی خان

برہ درش خیلہ کی غیر سیاسی تنظیمیں (ماضی، حال اور مستقبل)

برہ درش خیلہ کی مٹی ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے۔ یہاں اعلا پائے کے سیاسی، سماجی، علمی و ادبی شخصیات جنم لے چکی ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی ملک وقوم کا سرفخرسے بلند کر رکھا ہے۔ یہی شخصیات نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی ہیں۔ بڑوں کی بھرپورجھلک آج بھی نوجوان نسل میں بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔ وہ جو پشتو میں کہتے ہیں: ’’د باز د جالے نہ باز پاسی۔‘‘
خوش قسمتی سے ہمارے نوجوان بھی مثبت سوچ کے حامل اور بڑوں کے نقشِ قدم پر چلتے نظر آرہے ہیں۔
مثبت سوچ کی حامل ہماری نئی نسل وقتاً فوقتاً بہت اہم خدمات سرانجام دیتی آئی ہے، جس میں شورشِ سوات کے دوران میں ضرورت مندوں کی امداد ہو یا سیلاب زدگان کی مالی اور بدنی امداد…… یا پھر وزیرستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی مدد،ہمارے نوجوان سبھی جگہوں پر پیش پیش تھے۔
پورے سوات میں تنظیم سازیاں اور کمیٹیاں ادغامِ ریاست کے بعد بننا شروع ہوئیں۔ اس ضمن میں ہمارے گاؤں ’’برہ درش خیلہ‘‘ میں بھی اصلاحی کمیٹیوں کا آغاز ہوا۔ پہلی اصلاحی کمیٹی 1974ء میں بنی، جس کی بنیاد شیرین زادہ بابو صاحب اور ڈاکٹر محمد جلیل صاحب نے دوسرے نوجوانوں سے مل کر رکھی۔
اس کے بعد باچا اکاخیل کی سربراہی میں ’’انجمنِ امدادباہمی کثیرالاغراض لمیٹڈدرش خیلہ‘‘ کے نام سے ایک اورکمیٹی بنی جس کا پہلا باقاعدہ اجلاس 8 مئی 1975ء کو ہوا۔ اس کے بعد تو کمیٹیوں اور تنظیموں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چل پڑا۔25 جنوری 1976ء کو میاں باقی گل پاچا کی صدارت میں ’’انجمنِ غربا‘‘ یا ’’دہقانوں کی تنظیم‘‘ وجودمیں آئی، جو انتہائی فعال تھی۔
اس کے بعد ’’اصلاحی کمیٹی برہ درش خیلہ 1978ء‘‘، ’’انجمنِ اصلاحی کمیٹی 1987ء، ’’تنظیم چینالہ 1997ء‘‘ اور’’قومی فلاحی تنظیم برہ درش خیلہ 1998ء‘‘ بنی جو اپنے وقت کی بڑی فعال اورعمدہ تنظیمیں تھیں۔
اس کے علاوہ اور بھی ڈھیر ساری چھوٹی موٹی تنظیمیں وجود میں آئیں، مگر یہاں تحریر کی کم دامنی آڑے آر ہی ہے۔
2000ء کے بعد جدیدیت کا آغاز ہوتاہے۔ خدمتِ خلق کا جذبہ مزید نکھرتا ہے۔ یوں جدید تنظیمیں وجود میں آتی ہیں جس میں تعلیم یافتہ نوجوان نسل بھرپورحصہ لیتی ہے۔ اس ضمن میں چند قابلِ ذکر تنظیموں اور کمیٹیوں میں ’’ارفن کئیرفاؤنڈیشن‘‘ 2018ء میں بنائی گئی جس کا بنیادی مقصد غریب، یتیم اور ضرورت مند بچوں کو بلامعاوضہ علم کی روشنی سے منور کرانا تھا۔
اس کے علاوہ ’’درش خیلہ ویلفیئر فاؤنڈیشن‘‘ 2020ء کے نام سے وجودمیں آئی جس کا بنیادی مقصد کرونا وبا میں متاثرہ خاندانوں کی مالی امدا اور معاونت کرانا تھا۔ اس سے ڈھیر سارے مستحق خاندان مستفید ہوئے۔
اِسی سال یہاں کے کچھ نوجوانوں نے گاؤں میں خصوصاً اور پورے علاقہ سے عموماً منشیات کی لعنت ختم کرنے کے لیے ’’قومی جرگہ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جو شروع میں بڑی فعال نظرآئی، لیکن جلدہی یہ تنظیم بھی دوسری تنظیموں کے ساتھ گم نامی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلی گئی۔
حال ہی میں نوجوانوں نے ’’افغان قومی جرگہ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جس کا بنیادی مقصد نوجوان نسل میں سیاسی، سماجی، تاریخی، علمی، ادبی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور اُن میں چھپی صلاحیتوں کو اُبھارنا، ان میں نکھار پیدا کرنا اور ان کو معاشرے کا فعال فرد بنانے میں معاونت کراناجیسے مقاصدشامل ہیں۔
قارئین! اس قسم کی تنظیمیں اورکمیٹیاں بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو میرے خیال سے ہرگاؤں اورمحلے میں ہونی چاہئیں لیکن بنانے کامقصدکسی کی دل آزاری یاکسی کوتکلیف پہنچانانہ ہو اور سب سے بڑھ کریہ کہ تنظیمیں وقتی نہ ہوں،اس میں متعصب، منفی سوچ اوررویے والے لوگ نہ ہوں۔ تنظیم کسی کی دل آزاری یامقابلے کے لیے نہ بنائی گئی ہو۔
ہاں! اگرکسی نیک کام اورمقصد میں مقابلہ کرناہو، توکوئی مضائقہ نہیں۔ عہدوں کا غلط اور ناجائز استعمال نہ کرنا، اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کرنا، خدمتِ خلق کو اہمیت دینا، عوام میں مثبت سوچ لانے، تعلیمی بیداری اورمعاشرے کا فعال فرد بنانے کے لیے کمیٹیاں اورتنظیمیں بنانا ناگزیرہے۔
(نوٹ، اس تحریر میں مشہور کالم نگار اور ادیب ساجد ابوتلتاند صاحب کی کتاب ’’درش خیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں‘‘ سے معاونت لی گئی ہے، راقم)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں