کالممحمد شیر علی خان

یو نیمگڑے وصیت (تبصرہ)

 چی دی نن د دین غوٹئی ھم مڑاوی کیگی
بیا بہ نہ کڑی لوے ارمان اوس ئی پاسبان شہ
کتابوں سے حد درجہ عقیدت اور ان کو جمع کرنے کا شوق ہم میں سے بیش تر لوگوں کو ہے…… لیکن بہ شرط یہ کہ کتابیں مفت ہوں یا کسی نے تحفتاً دی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق کتابوں کی قدر و قیمت روز بہ روز کم یا بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ کتابیں خریدنے کو رواج دیں۔ اس سے پڑھنے کے عمل کو فروغ ملے گا۔
قارئین، گذشتہ دنوں ایک ادبی پروگرام میں ادبی دوست اشرف سحاب نے ایک بڑی خوب صورت کتاب تحفے کے طور پر دی۔ کتاب کے خوب صورت گیٹ اَپ کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اور سوچا کہ شاید یہ کوئی افسانوی مجموعہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سے پہلے اشرف سحاب نے اپنا ایک ناول ’’غازی‘‘ کے نام سے شائع کرکے اس سے راقم کو نواز چکا ہے، لیکن گھر آکر غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ’’یو نیمگڑے وصیت‘‘ نامی یہ کتاب تو شعری مجموعہ ہے…… اور شہاب الدین شہابؔ صاحب کا لکھا ہوا ہے۔
480 صفحات پر مشتمل یہ کتاب خوب صورت اور دیدہ زیب گیٹ اَپ کے ساتھ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز مینگورہ سوات نے زاہد بشیر پرنٹرز لاہور کے ذریعے چھپوائی ہے۔ کمپوزنگ نجیب زیرے جب کہ پروف ریڈنگ کے فرائض حنیف قیس صاحب نے انجام دیے ہیں۔ موصوف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین اور بڑے بھائی کے نام کیا ہے۔
لگ ساعتونہ ترینہ خوند واخلہ نن
پہ بام کتوتہ دی ورغلے نہ ووم
میانہ قد، گندمی رنگت، چوڑی پیشانی، چھوٹی مگر گھنی کالی داڑھی، ستواں ناک، سنجیدہ چہرہ……یہ ہیں شہاب الدین شہابؔ صاحب جو پیشے کے لحاظ سے معلم جب کہ ادبی میدان میں شعر و شاعری کے مردِ میدان ہیں۔ موصوف کا تعلق اخون خیل قبیلے سے ہے۔ ’’یونیمگڑے وصیت‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ کتاب پر معروف شاعر و ادیب لائق زادہ لائقؔ نے ’’زاوئی‘‘ کے نام سے دیباچہ لکھ کر اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ شہابؔ صاحب نے ہر نظم اور غزل کو اپنا ایک خاص نام دے کر اس پر خوب صورت شاعری کی ہے۔ جیسے ’’یو ارمان شروع کوومہ‘‘،’’اعتبار مہ کوہ‘‘، ’’د سحر مقدس وخت‘‘، ’’مورنئی سیمہ‘‘، ’’جام راڈک کڑہ‘‘، ’’کارونہ وران کڑی‘‘، ’’سہ وئیلے نہ شم‘‘ اور ’’کامران شہ‘‘ وغیرہ۔
راحت کے دسختئی خوبونہ اووینہ کامران شہ
د غلانو پہ کاروان کی د نیکو سراغ رسان شہ
شہابؔ صاحب کی شاعری اعلا پائے کی ہے۔ آپ نے اپنے احساسات اور جذبات بڑے نرالے، عمدہ، شان دار اور بہترین انداز سے بیان کیے ہیں۔ آپ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ وطن کے حسن پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
د قدرتی حسن یے سہ اووایم
د جنتونو نظارہ خکارہ کیگی
دی دنگو غرونو او درو تہ سلام
دی شنو سیندونو او ولو تہ سلام
داشنہ پٹی او زیڑ گلونہ خکاری
پہ دوو غرونو کی وادو تہ سلام
شہاب صاحب ایک مذہبی اور روحانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبھی تو ان کی شاعری میں اخلاقی اور مذہبی اشعار بھی پائے جاتے ہیں۔
پرچہ ئی راتہ خودلی امتحان شولو اسان
دا سنگہ زندگی شوہ چی تیرے ئی پہ جھان
دگلونو کر چی کڑی خوشبو بہ واخلی
نیک سیرتہ ٹول پہ دے لار جاودان
عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رومانی لیا جاتا ہے۔ زندگی میں اگر رومان نہ ہو، تو زندگی کا مزا پھیکا پڑ جاتا ہے۔ شہابؔ صاحب کی شاعری میں بھی رومانیت کی آمیزش پائی جاتی ہے ۔
پہ ھغہ سترگو کی رانجہ پوری کڑی
سوک چی کوسے تہ د خپل یار رازی
شہابؔ صاحب کی حالاتِ حاضرہ پر بھی گہری نظر ہے۔ معاشرے کے لیے موبائل کو زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔
امام بہ پہ مانزہ پسی فوراً درود وررد کڑہ
دا کار موبائل واخست زکہ دے کڑی وسوسی
یو ورز پہ یو دکان کے یو ملا ورگنیدہ
فیس بک کے می لیدلی دی بیگا سمی نخری
موصوف معاشرے میں موجود فحاشی و عریانی پر بھی دل برداشتہ ہیں۔ تبھی تو کہتے ہیں:
کوم خواتہ چی گوری بازارونہ ڈک د جونو
حیا لہ خلکو لاڑہ بی حیائی دی اسری
شہابؔ کی شاعری میں طنز اور نفرت کا عنصر بالکل نہیں۔ تبھی تو اپنی شاعری میں دوسرے شعرا کا تذکرہ برملا کرتے ہیں۔
کہ رحمان دے کہ حافظ دے تری زاریگم
د اقبال مزار تہ ھم خلق روان دی
غرض شہابؔ کی پوری شاعری میں مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی رنگ نمایاں ہے۔ آپ اپنی شاعری کے ذریعے ایک طرف تو زبان و ادب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف معاشرے کے اصلاح کا بیڑا بھی اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ ربِ کائنات ان کو اپنے مقصد میں کام یابی عطا فرمائے ، آمین۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں