روح الامین نایابؔکالم

کیا ادب جمود کا شکار ہے؟

ادب معاشرے کی نفی سے نہیں اثبات سے پیدا ہوتا ہے۔ خلا کو معاشرہ اور معاشرے کو خلا سمجھ کر لکھنے والے ادب، معاشرے اور زندگی کے تہذیبی اور نامیاتی عمل سب کی نفی اور تضحیک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے میری نظر میں ادب کے پڑھنے والے، لکھنے والوں سے بعض صورتوں میں زیادہ معتبر اور باذوق ہیں، لیکن یہاں ایک المیہ ہے اور المیہ یہ ہے کہ لکھنے والے کا کام تو لکھنا ہوتا ہے، مگر اس لکھے ہوئے کی قدر و قیمت باذوق اور معتبر قاری کی آنکھ متعین کرتی ہے۔ تب جاکر لکھنے والے کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا کتنا مؤثر اور دل پذیر ہے۔
آج یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ”قاری گم ہوگیا ہے“ تو اس کا سبب یہ نہیں کہ قاری اور تخلیق کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے؟ قاری تو موجود ہے لیکن قاری کا رد عمل یا تاثر سامنے نہیں آ رہا۔ گویا قاری کا ردِ عمل اور تاثر ہی لکھنے والے کی تخلیقی صلاحیتوں کو اثبات یا نفی کے ذریعے مہمیز کرتا ہے۔ اگر قاری درمیان سے نکل جائے، تو تحریر بے معنی ہوجاتی ہے، اور تخلیق کار اپنی تحریر کے تاثر سے محروم ہوجاتا ہے، لیکن دوسری جانب حقیقت تو یہ ہے کہ کسی ادبی تحریر نے کوئی شور شرابا برپا نہیں کیا۔ کسی ادیب کو ہار پہنائے گئے نہ کسی ادیب کا گھر جلایا گیا، تو یہ سناٹا کیوں ہے؟
اس خاموشی اور جمود کے کیا معنی؟
بہت پہلے مشہور ادیب، نقاد، کالم نویس، سوانح نگار جناب انتظار حسین (مرحوم) نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان میں ادب مرگیا ہے!“
آخر مرنے سے کیا مراد ہے؟
اس کے دوسرے معنی تو یہ ہوئے کہ جو ادب قوم کو نئی زندگی کی راہیں نہ دکھائے، اُسے خوابِ غفلت سے بیدار نہ کرے اُنہیں ھجنجھوڑ کر،  تنگ و تاریک راہوں سے نکال کر روشنی کی کھلی شاہراہوں اور وسیع و عریض میدانوں میں نہ لائے، تو ادب کی وہ موٹی موٹی کتابوں کے بے جان الفاظ سے کیا فائدہ؟
جی ہاں! خاموشی تو ہوگی۔ کیوں کہ ادب تو معاشرے کے ساتھ لڑائی سے پیدا ہوتا ہے، لیکن اب ہمارے لکھنے والے معاشرے سے سمجھوتا کرکے ادب پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سمجھوتوں سے ادب پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ ادب مرجاتا ہے اور یہی حقیقت انتظار حسین صاحب بتانا چاہتے تھے۔
ادب کیا ہے؟
بقولِ منشی پریم چند:”جو ادب ہم میں ذوق بیدار نہ کرے، روحانی اور ذہنی سکون نہ بخشے، ہم میں قوت اور حرکت پیدا نہ کرے، ہم میں حسن کا جذبہ جگانہ دے، ہم میں سچائی کا ارادہ اور مشکلات پر قابو پانے کی مستقبل مزاجی پیدا نہ کرے، وہ فن ہمارے لیے بے کار ہے، وہ ادب نہیں ہے۔“
ہمارے لکھنے والوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ اب وہ صرف ادیب، شاعر ہونے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ وہ دانشور بن گئے ہیں، بولنے والے دانشور……! اور بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے بیانات میں جن خیالات کا یا جن نظریات کا اظہار کرتے ہیں، وہ اُن کے ہاں تخلیقی سطح پر منتقل نہیں ہوتے، صرف گفتگو میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے افکار و نظریات اُن کے افسانوں، ناولوں اور شاعری میں تخلیقی تجربے کے طور پر آنے کے بجائے سیاست دانوں کے بیانات کی طرح صرف اُن کی گفتگو تک محدود ہوتے ہیں۔
ادب میں آفاقیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ زمان و مکاں کی حدود سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ہر عظیم ادب پارہ سب سے پہلے اپنے عہد سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ اپنے عہد سے، اپنے معاشرے سے اس کی جڑیں، اس عہد اور معاشرے میں دور تک پھیلتی جاتی ہیں اور یہاں سے اوپر اُٹھ کر وہ افق تا افق بکھرتا رہتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر عہد کے بے شمار تخلیق کاروں میں چند ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ اس عہد کے تقاضوں کو محسوس تو وہ سب کرتے ہیں، لیکن انہیں تخلیقی قوتوں اور اختراعی لذتوں کے ساتھ برتنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو اپنے عہد کے تقاضوں کو تخلیقی توانائیوں میں پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ادیب کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ملک و قوم میں نئی زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کے گیت گائے۔ ہر انسان کو اُمید اور مسرت کا پیغام سنائے، اور کسی کو نا امید اور ناکارہ نہ ہونے دے۔ اگر ہم آج اپنے معاشرے میں اپنے لکھاریوں کے لیے سمتوں کا تعین کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ”ادب کو سمجھوتوں کے غلافوں میں نہ لپیٹا جائے، اور نہ ذاتی مفاد کے خوبصورت کمبلوں سے ڈھک دیا جائے۔ کیوں کہ ادب کی سچائی کبھی کسی بھی صورت میں ظاہر ہو ہی جاتی ہے، اور وہ وقت بڑا تلخ، ہٹ دھرم اور سنگ دل ہوتا ہے۔ اس وقت کا جبر سب سے پہلے ادیبوں کا خون بہادیتا ہے، اور بڑی بے رحمی سے سروں کو جسموں سے علیحدہ کیا جاتا ہے، کیوں کہ ادب نے ہمیشہ ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں، جابروں کے خلاف مجبوروں کی حمایت میں، طاقتوروں کے خلاف کمزوروں کے حق میں، اندھیروں کے خلاف اجالوں کی حمایت میں اور حاکموں کے خلاف محکوموں کی حمایت میں آواز بلند کی ہے، اور اسی آواز نے انسانی معاشرے کو ایک نئی سوچ، نیا زاویہئ نگاہ اور انسان دوستی کا ایک نیا درس عطا کیا ہے۔ آج اسی آواز کو بین الاقوامی پس منظر میں زیادہ مستحکم، زیادہ واضح، با وقار، توانا اور حوصلہ مند بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ اس دھرتی پر پھر سے انسان دوستی اور امن کا بول بالا ہو۔ انسانی فکر و نظر پر کوئی قدغن نہ ہو۔ کسی پر ظلم و جبر نہ ہو۔ سوچ آزاد ہو، قلم آزاد ہو تو ادب بھی آزاد ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آزادی کی اس جدوجہد کا آغاز کون کرے گا؟
بلا شبہ ادیب ہی کرے گا۔
یہ ادب ہی ہے جو عوام کو اُن کے مسائل کی نشان دہی کرے گا اور مسائل کا حل بھی بتائے گا کیوں کہ ادب کسی ما بعد الطبعیاتی تاویل کا نام نہیں بلکہ ذوق و جوان کے اس تاثر کا نام ہے جو وہ اپنے گرد و پیش کی فضا سے حاصل کرتا ہے۔ اس جوہر کا نام ہے جو محسوس ہوتے ہی احساس کے آئینے میں اتر جائے…… ادب کو لازماً اپنے ملک اور اپنی قوم کی تاریخ ہونا چاہیے جو اس کے اجتماعی، جمالیاتی، ارتقائی غرض تمام پہلوؤں کو احاطہ کیے ہو، اور اس میں اپنے دور کی زندگی کے تمام گوشے محفوظ ہوں۔
ہر ادب اپنی ثقافت کا امین ہوتا ہے۔ اس طرح ثقافت کی تاریخ اور تسلسل سے آگاہی بھی ادب اور معاشرے کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ محدود دائرے میں چکر کاٹنے والے اور غلط اندازے قائم کرنے والوں کے اذہان کے سامنے ایک وسیع تناظر اور حقائق کی دنیا سامنے نہیں آسکتی، جو نقطہئ نظر کی تبدیلی اور سوچ کی اصلاح کا باعث بن سکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا ادب مختلف خولوں اور دائروں میں مقید ہے۔ مزید یہ کہ وہ مختلف ٹولوں اور گروہوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ وہ اپنے مخصوص دائروں سے آگے نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارا ادب جمود کا شکار ہے۔
پاکستان میں بے پناہ مسائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بے انصافی کا رونا رویا جارہا ہے۔ پختونخوا اور سوات میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک تاریک دور کے ظلم و ستم اور خونچکاں حادثات کو شعر و نغمہ میں گایا جارہا ہے۔ افسانوں، کتابوں اور تحقیقی مقالوں میں لکھا اور بیان کیا جارہا ہے، لیکن اس کے حل کے لیے شاعر اور ادیب خاموش ہے۔ کیا اس حوالے سے ادیب کنفیوز ہے؟ یا وہ جانتا ہے لیکن ڈر کے مارے بتا نہیں پارہا…… یا ابھی بتانے کا وقت نہیں آیا!!
تو کیا اس لیے ادب جمود کا شکار ہے؟
صرف پاکستان میں یا پوری دنیا میں ادب پر جمود طاری ہے؟
آپ سب کا کیا خیال ہے؟
ذرا اس موضوع پر قلم اُٹھائیے، دعوت عام ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں