فضل محمود روخانکالم

مسئلہئ فیثا غورث

جب مَیں سکول میں پڑھتا تھا، تو ہمارے ریاضی کے اُستاد صاحب تختہ سیاہ پر سوال حل کرتے وقت ”مسئلہ فیثا غورث“ کی بحث چھیڑ دیتے۔ یہ مسئلہ کیا تھا؟ مَیں اُس وقت بھی نہ سمجھا تھا اور اب بھی وہی حال ہے۔ البتہ جب مَیں نے فیثا غورث کا مطالعہ کیا، اُن کے حیات، فلسفہ اور نظریات سے خود کو آگاہ کیا، تو پتا چلا کہ یہ تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام سے بھی تقریباً 600سال قبل گزرا ہے اور یہ کہ یہ ریاضی کا باوا آدم ہے۔
فیثا غورث ریاضی دان ہونے کے علاوہ ایک عظیم فلاسفر، سائنس دان ماہرِ طیب، موسیقار، قانون دان، ماہرِ فلکیات، سیاست دان اور ماہرِ دینیات تھا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی سوسائٹی کا سربراہ تھا، جو مذہب اور سائنس پر کام کررہی تھی۔ سوسائٹی کے ممبران ایک ضابطے پر کار بند تھے اور اپنے کاموں کو خفیہ رکھتے تھے۔ اسی لیے آج بھی فیثا غورث ایک پر اسرار شخص ہے۔
فیثا غورث ترکی کا باشندہ تھا اور ترکی میں لمنوس کا رہنے والا تھا۔ اس کا باپ منسارکس ایک جاگیردار اور دولت مند خاندان سے تھا۔ اس کی ماں کا نام فتیاس تھا۔ وہ ساموس کی خوبصورت ترین خاتون تھی۔ منسارکس کسی وجہ سے لمنوس سے جلاوطن کردیا گیا تھا۔اس وجہ سے اس نے ساموس میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ ساموس ترکی میں ہے، لیکن چوں کہ فیثا غورث بڑا نام ہے، اس لیے یورپ والوں نے اس کو اپنا بنایا ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ فیثاغورث اپنے ساتھیوں بلکہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ اٹلی چلا گیا تھا۔ یہ لوگ ہجرت کرتے وقت اپنے اہل و عیال سمیت کروٹونا آئے تھے۔ وہاں پر ان سب کو ایک بہت بڑی عمارت (آڈیٹوریم) میں ٹھہراگیا تھا۔
فیثاغورث نے بڑی دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ وہ ہندوستان بھی گیا تھا۔ مصر بھی گیا تھا۔ مصر سے واپسی پر ساموس آیا، تو تھیانو اپنے والد کے ہمراہ فیثاغورث کا لیکچر سننے گئی تھی۔ وہ اتنی متاثر ہوئی کہ اُس نے فیثاغورث کو اپنی زندگی کا ساتھی بنالیا۔ اگرچہ اُس وقت تھیانو ایک خوبصورت کلی تھی اور عمر میں فیثاغورث سے بہت چھوٹی تھی۔ وہ خوبصورت اور ذہین تھی۔ ”تھیانو“ بھی ساموس اور کروٹن میں فیثاغورث کی اکیڈیمی میں ریاضی پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ فیثاغورث کے سکول میں داخلہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ جب کوئی طالب علم کڑی شرائط پر پورا اترتا تھا، تب کہیں جاکر اُس کو داخلہ ملتا تھا۔ مثلاً طالب علم سے داخلے کے وقت پوچھا جاتا کہ اس کے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟ طالب علم کی زبان اور اُس کے بولنے کے انداز و معیار کو پرکھا جاتا۔ گفتگو کو غور سے سنا جاتا اور طالب علم کی خاموشی کا بھی جائزہ لیا جاتا۔ طالب علم سے اُس کی خواہشات کے بارے میں بھی پوچھا جاتا، بلکہ اُس کے ہنسی کا بھی جائزہ لیا جاتا۔ طالب علم کے دوستوں کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل کی جاتی اور دوستوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں معلوم کیا جاتا۔ طالب علم سے پوچھا جاتا کہ وہ فارغ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ کس طرح گزارتا ہے، طالب علم کون سے مضامین میں دلچسپی رکھتا ہے، وہ کس چیز سے خوش اور کس بات پر غم زدہ ہوجاتا ہے؟ یوں طالب علم کی شخصیت کا پورا جائزہ لیا جاتا اور اس کی جسمانی حرکات و سکنات کا بھی جائزہ لیا جاتا۔ امیدوار طالب علم کی نفسیات کو جانا جاتا تھا۔ اس کی ظاہری شخصیت اور ذہن کو پڑھ کر اس کے رجحانات کو بھی جانا جاتا کہ اس کی روح کس قدر سادہ اور ملائم ہے۔ اگر ان تمام معیارات پر اُمیدوار پورا اترتا، تب کہیں جاکر اس کو سکول میں داخلہ ملتا۔
فیثاغورث دوستی کو بہت اہمیت دیتا بلکہ دوستی کے لیے وہ اپنے تمام کام چھوڑ دیتا تھا۔ وہ دوست بنانے میں نہایت احتیاط سے کام لیتا تھا، بلکہ وہ اپنا دایاں ہاتھ آسانی سے کسی کے ہاتھ میں بھی نہ دیتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کی صحت کے بارے میں ان سے گفتگو کیا کرتا تھا اور ان کو مشورے دیا کرتا تھا۔ فیثاغورث اپنے پیروکاروں کو ہدایت کرتا تھا کہ معاشرے میں انصاف کے لیے انسانوں میں ایسا جذبہ پیدا کرنا ضروری ہے کہ وہ انسان تو انسان، جانور پر بھی کس طرح ظلم نہ کریں۔ اس کے دینیات کی بنیاد اس پر تھی کہ خدا کی موجودگی کو تسلیم کیا جائے اور خدا کی موجودگی کو فطرت میں تلاش کیا جائے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو اعتدال اور ضبط نفس کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے سب انسانوں کی عزت کرنا ضروری ہے۔ ضبط نفس سے عقل بڑھتی ہے اور انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے خیالات پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ضبط نفس سے کام لیا جائے۔ کم کھانا، کم پینا اور کم سونا بھی صحت اور روح کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ زبان پر قابو رکھنا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بڑوں کا ادب کریں اور ان سے مفید مشورے لیں اور ضبط نفس پر کاربند رہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں