فضل محمود روخانکالم

کچھ سنڈاکئی بابا کے بارے میں

سوات کی حالیہ تاریخ میں سنڈاکئی باباؒ ایک بہت بڑے ولی اللہ، مردِ مجاہد اور ریفارمر گزرے ہیں۔
ضلع شانگلہ میں دریائے سندھ کے کنارے ایک بلند و بالا پہاڑ پر واقع ایک چھوٹی سی بستی برکلے کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ 1831ء میں ولی احمد جو تاریخ میں سنڈاکئی ملا اور کوہستان ملا کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ”عبدالحمید“ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ چوں کہ بچپن میں ان کی ماں مر گئی تھی اور سوتیلی ماں کے ساتھ اس کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے وہ بچپن میں اپنے گاؤں سنڈاکئی سے چلے گئے اور مسجد میں مقیم ہوگئے۔ وہ دینی علم حاصل کرنے میں پیش پیش تھے۔ ہندوستان کے دارالعلوم دیوبند کے بڑے بڑے علما سے ظاہری و باطنی علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں حج کرنے مکہ مکرمہ گئے۔ حج سے جب واپس آئے تو معاشرے میں اصلاح اور تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اُس زمانے میں پختون معاشرے میں بہت سی بدعات اور بری رسوم رائج تھیں۔ آپ نے اصلاحِ معاشرہ کے بیڑا اٹھایا۔ چوں کہ اُس وقت ہندوستان میں فرنگی کا راج تھا اور فرنگی سامراج سے وطن کو آزاد کرنے کے لیے عملی جہاد بھی فرض ہوچکا تھا۔ اس لیے آپ نے ترنگزو کے حاجی سے ملاقات کی جو انگریزوں کے خلاف صوبہ سرحد میں لڑ رہے تھے۔ سنڈاکئی بابا نے جہاد شروع کیا۔ دینِ اسلام کو پھیلانے، بری رسوم اور بدعات کو ختم کرنے اور جہاد کے لیے جوانوں کو تیار کرنے میں دن رات ایک کردیئے۔
ایک مدرسہ دارالعلوم رحمانیہ تہکال پشاور میں قائم کیا اور کچھ عرصہ بعد دوسرا مدرسہ کالو خان (صوابی) میں کھولا۔ مدرسہ اور دارالعلوم چلانے کے لیے اُستادوں کی تنخواہ اور طلبہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے سوات کا رُخ کیا اور سوات میں عمارتی لکڑیوں کا کاروبار شروع کیا۔ ساتھ ہی انگریزوں کے خلاف تحریک بھی چلانے لگے۔
جب آپ سوات آئے، تو ایک روحانی پیشوا کی حیثیت سے آپ یہاں بہت مقبول ہوئے۔ سنڈاکئی باباؒ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ انہوں نے بزورِ شمشیر سوات میں برائیاں ختم کیں۔ اُن دنوں سوات میں عملاً کوئی بادشاہی نہیں تھی، کوئی حکمران نہیں تھا۔ خان، خوانین اور ملک اپنے اپنے حجرے اور دیرے چلارہے تھے اور آئے روز نوابِ دیر کے حملوں سے دریائے سوات کی دائیں جانب کے لوگ اُن کے ظلم اور بربریت سے تنگ آگئے تھے، بلکہ ایک طرح سے انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ وہ حکومت کرنے کے بجائے لوٹ مار کرتے تھے اور پھر دیر چلے جاتے تھے۔ اس وجہ سے علاقے کے بڑے نوابِ دیر کے خلاف متحد ہوگئے اور اپنا ایک بڑا لشکر تیار کیا۔ سنڈاکئی باباؒ کی رہنمائی میں وہ دیر فوج کے خلاف لڑنے لگے اور ایک سخت جنگ کے بعد دیر کو شکست ہوئی۔ دیر کی افواج بھاگ نکلیں۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں دیر کے فوجی اتنے مارے گئے کہ سمبٹ کے کتے اور دوسرے مردار خور پرندے کئی کئی روز تک لاشوں کو نوچتے رہے۔
بعد میں علاقہ کے لوگوں نے سنڈاکئی بابا کے کہنے پر ستانہ کے سید عبدالجبار شاہ کو سوات کا بادشاہ بنایا۔ ان کی حکومت عملاً دریائے سوات کے دائیں کنارے کے نیک پی خیل، شامزئی، شموزئی، سیبوجنی وغیرہ علاقوں پر تھی۔ چوں کہ سید عبدالجبار شاہ بادشاہ بھی انگریزوں کے خلاف تھے اور جہاد کے متوالے تھے، اس لیے ایک سازش کے تحت اُن کو سوات کی حکومت چھوڑنا پڑی۔ سید عبدالجبار شاہ اپنے علاقے ستانہ چلے گئے اور سوات کے لوگوں نے میاں گل عبدالودود کو بادشاہ بنایا جو بعد میں ایک کامیاب حکمران ثابت ہوئے اور سوات ترقی کی راہ پر چل پڑا۔
1920ء میں بادشاہ نے صاحب سنڈاکئی بابا کو سوات سے جلاوطن کردیا اور وہ دیر چلے گئے۔ نہاگ درہ کے کوہان میں رہنے لگے۔ کہتے ہیں کہ باجوڑ کے لوگوں نے انہیں بادشاہ بنانا چاہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بعد ازاں کچھ عرصہ بعد کوہان میں وفات پاگئے اور وہیں پر ان کا مزار ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں