کالممحمد شیر علی خان

د کلاچئی نہ تر وطنہ

ہلکی پُھلکی بارش ہورہی تھی۔ ماحول میں خُنکی تھی۔ سہ پہرکاوقت تھا۔ مَیں اپنے چچا محترم ساجد ابوتلتاند (گل لالا) کے ساتھ سعید اللہ خادم صاحب کے حجرے پہنچ گیا۔ جہاں کراچی سے آئے ہوئے مہمان شاعر، نثر نگار اور کالم نگارساگرتنقیدی صاحب کے اعزازمیں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس کی صدارت محترم حنیف قیس اور میزبانی کے فرائض امجد علی سورج ادا کر رہے تھے۔ مشاعرے میں عمر رسیدہ شعرا کے ساتھ ساتھ نوجوان شعرا جیسے حمید الرحمان ہمدردؔ، برہان الدین حسرتؔ، فیض علی خان فیضؔ، حیدر علی حیدرؔ وغیرہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس ادبی ماحول میں ہر کوئی خوش وخرم نظرآ رہا تھا۔ شرکا اپنے پسندیدہ اشعار پر داد دینے میں فراخ دلی کامظاہرہ کررہے تھے۔ اس ادبی ماحول میں سب کی توجہ کا مرکز ساگر تنقیدی صاحب ہی تھے۔
”سوات ادبی الوت پختون خوا“ کی طرف سے منعقدہ اس مشاعرے میں موصوف کو اعزازی شیلڈ بھی دیے گئے۔ اس مشاعرے میں ساگر صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ”د کلاچئی نہ تر وطنہ“ کی رونمائی بھی ہوئی اور کتاب پر چندایک تاثرات بھی پیش کیے گئے۔ آخر میں ساگر صاحب نے اپنی کتاب شرکا کو تحفتاً پیش کیا۔ یوں شام کو یہ مشاعرہ اختتام پذیرہوا۔
زردادخان المعروف ساگر تنقیدی کی جنم بھومی سخرہ (سوات) ہے لیکن فکرِ معاش اُن کو روشنیوں کے شہر کراچی لے گیا، جہاں اُن کے بقول اُن کو زندگی کی تمام سہولیات دستیاب ہیں اور وہ ایک خوشحال زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن وطن اوراہلِ وطن سے آج بھی والہانہ محبت رکھتے ہیں، جبھی توسوات اوراہلِ سوات کواپنے اشعار میں یاد کرتے رہتے ہیں۔ اب توسوات میں گزرے لمحات کو قلم بند کرکے اسے ”دکلاچئی نہ تر وطنہ“ نام دیا ہے۔ موصوف کی یہ کتاب بنیادی طور پر ایک ”رپورتاژ“ ہے۔
ساگرصاحب انتہائی ہنس مکھ اور خوش طبع ہیں۔ میانہ قد، گندمی رنگت، سنجیدہ طبیعت، روشن آنکھیں، خوب صورت ناک و نقشہ کے ساتھ چہرے پر بڑی بڑی کالی مونچھیں سجائے غضب ڈھاتے ہیں، جس سے اُن کی شخصیت میں ایک قسم کا وقارپیداہوتا ہے۔
کراچی میں بود و باش اختیار کرنے والا ادبی میدان کا یہ جیالامادری زبان اورجنم بھومی سے لامتناہی محبت رکھتا ہے، تبھی تو اس رپورتاژ میں اپنی والہانہ محبت کا برملااظہار کرچکے ہیں۔ یہ کتاب اُن کے کراچی سے سوات آنے، جانے اور یہاں پر قیام کی روداد ہے جس کو نام دیا ہے: ”دکلاچئی نہ تروطنہ۔“
ساگرصاحب کی یہ کتاب اُن کی اعلا ذوق کی ترجمانی کرتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس میں بلا کی روانی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے قاری ایک قسم کا حظ محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو مصنف کے دوش بدوش محسوس کرنے لگتا ہے۔کتاب میں تاریخ، تاریخی واقعات، دوست، دوستی اور مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کو بہترین انداز سے پیش کیاگیا ہے۔
امیر محمدسلطان، ساگرصاحب اوراُن کی کتاب کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں: ”ساگر صاحب ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اورسماجی شخصیت بھی ہیں۔ اُن کی کتاب ”کلاچئی نہ تر وطنہ“ نہ صرف ایک رپورتاژہے بلکہ یہ تاریخ کا حصہ بھی ہے۔“
ساگرصاحب کے الفاظ میں مقصدیت کے ساتھ شہدجیسی میٹھاس بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے جذبات اور احساسات کوالفاظ کی شکل دی ہے جس کا سحر قاری پر آخر تک طاری رہتا ہے۔ وطن چھوڑتے ہوئے اپنے جذبات اس طرح بیان کرتے ہیں:
سوک پہ رضا د ملکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یا د یار د غمہ زینہ
پوری کتاب میں ایک خاص قسم کا تسلسل ہے، لیکن بعض جملے انتہائی عجلت میں لکھے دکھائی دیتے ہیں لیکن شاید یہ وقت کا تقاضاتھا۔
رشتوں کے تقدس کاخیال رکھاگیاہے اور ساتھ میں دوستوں کوبھی نظراندازنہیں کیاگیاہے۔
ساگر صاحب اس کتاب کے علاوہ دو اور کتابوں کے بھی خالق ہیں جن میں ایک ”خور وربل، ریخی گریوان“ اور دوسری ”د ساگر د مقدسو چپو زور دے“ ہے۔ اس کے علاوہ آپ ادب کی دوسری اصناف پر بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
قارئینِ کرام! ساگر صاحب کی یہ کاوش پشتوزبان وادب کے فروغ میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگی اور یہ ادبی میدان میں ایک اچھا اضافہ ہے۔
پختون خوا کے یہ ادبی نمائندے صوبہ سندھ میں پشتو زبان و ادب کے سفیر اور نمائندے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالا ان کو اس ادبی خدمت پر جزائے خیر عطا فرمائے، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں