کالممحمد شیر علی خان

بالاسور میں چند یادگار لمحات

قارئین، ابھی چند سالوں ہی کی تو بات ہے جب ہمارے سوات میں چند ہی تفریحی مقامات ایسے تھے جو سیاحت کے لیے مشہورتھے۔ ان میں کالام، بحرین، مدین، میاندم اورملم جبہ ہی سیاحت کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ سرکاری اورپرائیویٹ سطح پران مقامات کوتوجہ دی جاتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی گئی تو ان مقامات پر رش بھی بڑھتا گیا۔ تبھی تو نئے تفریحی مقامات کی کھوج اور تلاش شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں نئے نئے تفریحی مقامات منظرِ عام پر آتے گئے، جو عوام الناس میں مقبول ہوتے گئے۔ دراصل ان مقامات تک رسائی تھوڑی مشکل تھی۔ ورنہ یہ تفریحی مقامات زیادہ فاصلے پر نہیں تھے۔ بقولِ شاعر
میں جنہیں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہئ دِل کے مکینوں میں
ان دریافت شدہ مقامات میں جاروگو آبشار، مناگو، سپین خوڑ جھیل، شاہی باغ، اتروڑ، بویون کالام، گبرال کالام، دیسان، مانکیال، چیل مدین، باغ ڈھیری، قندیل، جالے گودر جلالہ، چھوٹاکالام، سُلاتنڑ، کنڈول جھیل اورسب سے بڑی دریافت گبین جبہ ہے، جس سے سیاحت کے میدان میں ایک انقلاب بَپا ہوا ہے، لیکن حال ہی میں بالاسور کے نام سے ایک نئے تفریحی مقام کا اضافہ ہوا ہے جو اپنی خوبصورتی کے لیے بے حد مشہور ہے۔ پہاڑوں کے درمیان واقع یہ علاقہ نئی بنائی گئی سڑک کی وجہ سے منظرِ عام پر آیا۔ فلک بوس پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے بیچوں بیچ، بل کھاتی یہ سڑک علاقے کی خوب صورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔ اگرچہ ایک طرف اس خوب صورت سڑک نے اس علاقے کی خوب صورتی ساری دنیا کو دکھائی ہے، تو دوسری طرف درشخیلہ اورچپریال کو ملانے کا آسان راستہ بھی مہیا کیا ہے۔
سوشل میڈیا نے اس علاقے کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیاہے جب ہی تو سیاحوں کے جمِ غفیر اس علاقے کے خوب صورت مقامات سے لطف اندوز ہونے آتے رہتے ہیں۔ ہم نے بھی اس علاقے کو دیکھنے کے لیے پَر تولے چار پانچ افراد پرمشتمل یہ کارواں جس میں راقم، آفتاب شہباز، انعام سیّد، امین الحق، فیروز شاہ اور چھوٹا احسان اللہ شامل تھے۔ شہباز کی ”بابوجی گاڑی“ میں روانہ ہوگئے۔ مادیات پہنچ کر باقی ماندہ راستہ پیدل طے کرنے کا ارادہ کرلیا۔ کیونکہ یہاں تقریباً دو کلومیٹر تک سڑک کچی اور دشوار گزار ہے۔ اس حصے پر زور و شورسے کام جاری ہے۔ اگرچہ راستہ کٹھن اور موسم گرم تھا،لیکن ہم نے تومنزلِ مقصودپرپہنچنے کامصمم ارادہ کیا تھا۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظرجن کی خدا پر ہو
طلاطم خیزموجوں سے وہ گھبرایانہیں کرتے
ہم آگے بڑھتے گئے سیاحوں (مہمانوں) کی راہ نمائی کرتے ہوئے فیل شدہ گاڑیوں کو دھکے لگا کر چڑھائی میں اوپر لے جانے میں مدد دیتے رہے اورساتھ ساتھ قدرتی مناظر، فلک بوس پہاڑوں ہرے بھرے جنگلات اورماحول کی خوب صورتی سے لطف اندوزہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ تازہ ہوا اور ہلکی پھلکی بارش نے ایک سما سا پیدا کردیا، تبھی توآفتاب شہبازکے پُرزوراصرارپرٹپوں کا دورچلاجس نے سفرکامزہ دوبالاکردیا۔
قارئینِ کرام! کے ذوق کے لیے چند ٹپے حاضرِ خدمت ہیں۔
جانان زما زہ د جانان یم
کہ دچڑو پہ ثوکو لار وی رابہ شینہ
جانان زما نہ مرور دے
زہ مرور د تمامی جہانہ یمہ
جانان زما نہ مرور دے
د آسمان ستورے پہ جرگہ ولہ لیگمہ
زما د رزق اللہ شتہ دے
گٹلے مال ٹول پہ جانان تالاکوؤمہ
د لیونئی داسی خندا دہ
د سلو کالو مرور پخلا کوینہ
اس ادبی ماحول میں ہم نے طنزیہ و مِزاحیہ انداز سے سیاست پربھی ہلکی پھلکی بحث کی جو صرف لطف اُٹھانے کے لیے تھی۔ ساتھی جنگِ زرگری سے بھی لطف اُٹھاتے رہے۔ تصاویر اور ویڈیو بناتے رہے۔ گپ شپ کے اس ماحول میں مزید دل فریب نظارے ہمارے منتظر تھے۔ اُوپر سے نظر آنے والے علاقے بڑے دل کش دکھائی دے رہے تھے، جس میں مشرق کی طرف خوازہ خیلہ، بیدرہ، درشخیلہ، اسالہ، فرحت آباد، شین، فتح پور جب کہ شمال کی طرف دارمئی، دوشاگرام، بارو پیندے وغیرہ دکھائی دیتے ہیں۔
ٹاپ سے نیچے مکانات چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی مانند جب کہ کھیت پنسل سے بنائے گئے مخمس، مسدس اورمستطیل کی شکل کے قطعات دکھائی دے رہے تھے۔ اوپر پہنچ کر ساتھیوں کوشدیدپیاس لگی لیکن پانی کاتوقریب قریب نام ونشان بھی نہیں تھا۔ نیچے آکرہم نے پیاس بجھائی۔ یہاں اگر چہ قلیل آبادی ہے، لیکن تعلیم کی شرح بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابرہے۔ زیادہ سے زیادہ ناظرہ پڑھ لیا، تو بڑی بات۔
13، 14 سال کی عمرمیں شادیوں کا رواج عام ہے۔ ذریعہئ معاش بھیڑ بکریاں پالنا اور یہ عمل آخری عمرتک جاری رہتا ہے، لیکن حالیہ جدیدیت کا اُن کی زندگی پرمثبت اثرات پڑے گا اورمستقبلِ قریب میں شاید اُن کا رجحان علم و ادب اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کی طرف بڑھے گا،لیکن ایک بات جوقابلِ ِذکر ہے، وہ یہ کہ یہ لوگ بڑے پُرخلوص اور محبت والے ہیں۔
قارئین، اس قسم کی نئی سڑکیں اگرایک طرف سیاحت کوفروغ دیں گی، تودوسری طرف مقامی آبادی بھی جدیدیت سے ہم کنار ہوسکے گی۔
ہم ان خوب صورت اور دل کش مناظر کی حسین یادیں دل میں بھر کر واپس ہوئے اورمغرب کے بعدگھرکوپہنچ گئے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں