فضل محمود روخانکالم

ایک درویش منش قلم کار

آج سے کوئی 35 سال قبل سوات کے ایک دور اُفتادہ گاؤں کا لڑکا گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج میں داخل ہوا۔ وہ ایم ایس سی اقتصادیات کا طالب علم تھا، لیکن اس کی پہچان اس کی زبردست اور بے مثال انگریزی تھی۔
اس کے ہاتھ میں پشتو اور اُردو کے اشعار تھمائے جاتے اور فرمائش کی جاتی کہ اسی وقت انہیں انگریزی کے قالب میں ڈھال دیں۔ وہ درویش منش انسان حاضریں کے سامنے اُن اشعار کا اس طرح انگریزی میں ترجمہ کرتا کہ اُس پر اصل کا گمان ہوتا۔
سال 1986ء میں اس کی شنا سائی فضل ربی راہی سے ہوئی۔ کبھی کبھار وہ راہیؔ سے ملنے کی خاطر ان کی دکان پر آجاتا۔ یوں ایک دن اس سے میری پہلی ملاقات راہیؔ ہی کی دکان میں ہوئی۔ وہ ایک شرمیلا اور دیہاتی لڑکا تھا لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ اللہ میاں نے اس سادہ دیہاتی سے لڑکے میں قابلیت کوٹ کوٹ کر بھر ی ہے۔ میرے لیے وہ ایک اجنبی تھا، لیکن راہیؔ کے لیے شناسا تھا۔ اس نے کہیں سے میری کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ پہلی ملاقات میں ہمیں یوں لگا کہ گویا ہم برسوں کے ساتھی ہوں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ لڑکا آگے چل کر میری دو کتابوں ’’لٹون د پوھے‘‘ (IN SEARCH OF WISDOM) اور ’’نیرنگِ زمانہ‘‘ (WINDOW ON THE LIFE) کا مترجم بنے گا۔ اُس دن سے لے کر آج تک زندگی کا طویل سفر ہم نے ادب میں اکٹھا گزارا ہے، لیکن ہمارے روابط میں رتی بھر فرق نہیں آیا ہے۔
یہ ہر دل عزیز اُستاد اور زبردست انگریزی دان ’’عنایت اللہ خان‘‘ 1964ء میں سوات کے گاؤں شکردرہ میں شیر افضل خان کے ہاں پیدا ہوا۔ 1990ء میں محکمۂ تعلیم میں بحیثیتِ مدرس بھرتی ہوا۔ ملازمت کے آغاز میں بونیر میں تعینات ہوا۔ وہاں تعلیم کی روشنی پھلانے کے بعد ضلع دیر میں ٹرانسفر ہوا۔ وہاں بھی اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کیے۔ جنت نظیر وادیِ سوات کے مرکزی اور معروف سرکاری سکولوں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول بریکوٹ، ہائر سکنڈری سکول کبل اور ہائی سکول مٹہ بَر سوات کے پرنسپل رہے۔ آج کل گورنمنٹ ہائی سکول شیر پلم سوات کے پرنسپل ہیں۔ میری دونوں کتابوں کا منظوم ترجمہ (پشتو سے انگریزی اور اُردو سے انگریزی) کیا ہے، جو واقعی ایک بڑا اور کٹھن کام ہے۔ اللہ تعالا نے اسے انگریزی پر خوب دسترس دی ہے۔ لوگ اصلاح کے لیے اس کے پاس آتے ہیں۔
اس کے شاگرد اس کے بہت مداح ہیں۔ کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ اگر اس کی ڈیوٹی نیشنل اسمبلی میں بہ طورِ ترجمان (INTERPRETER) کے ہوتی، تو شاید وہ احسن طریقے سے ملک و قوم کی خدمت کرنے پر مامور ہوتے۔ لیکن جب میں آئے دن نیشنل اسمبلی میں ہڑبونگ اور دھینگا مشتی دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ وہ محکمۂ تعلیم ہی میں اچھے ہیں ۔
مترجم کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ انگریزی میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ شاعری کا اچھا خاصا معیاری مواد اُن کے دیوان میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف مع ترجمہ اور احادیث شریف اُن کو زبانی یاد ہیں۔ مذاہبِ عالم کا وسیع مطالعہ بھی رکھتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں