فضل محمود روخانکالم

جنید خان …… طالبِ دعا

ملاکنڈ ڈویژن کے کمشنر آفس میں پرانے چنارکے درختوں کے عین وسط میں زمین سے چند فٹ اونچی جگہ پر کھلے آسمان تلے مسجد بنی ہوئی ہے…… جس میں جملہ سٹاف نماز ادا کرتا ہے۔ کچھ فاصلے پر سڑک کی دوسری طرف والیِ سوات کے دنوں کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس میں باقاعدہ باجمات نماز پڑھی جاتی ہے۔ ڈسٹرکٹ سوات کے دفاتر میں بھی ایک مسجد کچہری کے احاطے میں بنی ہوئی ہے۔ ایک مسجد برلبِ سڑک قبرستان کے احاطے میں بنی ہوئی ہے جس کے سڑک والے دروازے کو سیل کیا گیا ہے۔ اندر دفاتر والے دروازے سے لوگ مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ محکمۂ صحت کے دفاتر کے قریب ایک بڑے دالان میں بھی لوگ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح ایس پی آفس والے بھی اپنے احاطے میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ جمعہ والے دن نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی جمعہ پڑھنے کے لیے مختلف مساجد کا رُخ کرتا رہتا ہے۔ یوں مساجد میں نمازیوں کے لیے جگہ کم پڑجاتی ہے۔ مَیں نے خود مختلف ادوار میں ان مساجد میں جمعہ پڑھا ہے۔ مَیں خود ان مراحل سے گزرا ہوں۔
ایک دن مجھے ایک کام کے سلسلے میں ڈی سی آفس جانا پڑا۔ جب مَیں ڈی سی صاحب سے مل رہا تھا، تو وہ جلدی میں تھے۔ وہ اپنے سٹاف کے ہم راہ کہیں جا رہے تھے۔ مجھ سے پُرتپاک انداز سے ملے۔ جاتے ہوئے کہا کہ ’’آپ میرے دفتر میں بیٹھ جائیں۔ مَیں چند منٹوں میں واپس آتا ہوں!‘‘
یوں جب وہ واپس آئے تو ہماری ملاقات ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جنید خان (ڈپٹی کمشنر سوات) اپنے دفتر کی آخری چھت پر ایک نئی مسجد کی بنیاد رکھنے گئے تھے۔ اگر مجھے پہلے سے اس کا پتا ہوتا، تو میں اس کارِ خیر میں خود بھی شامل ہوجاتا۔
جنید خان نماز پابندی سے پڑھتے ہیں۔ اس سے پہلے اُن کا سٹاف، آفس سے باہر درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرتا تھا، جب کہ جنید خان اپنے آفس کے ایک دوسرے کمرے میں نماز پڑھتے تھے۔ آفس میں زیادہ کام کی وجہ سے اُن کو وقت پر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ جب لوگوں کا رش کم ہوجاتا، تو وہ روٹی کے چند نوالے کھاجاتے۔ یہی حال اُن کی نماز کا ہے…… لیکن اس کے باوجود وہ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں۔ دفتری اوقات کے بعد بھی وہ کام میں مصروف ہوتے ہیں اور شام گئے گھر جاتے ہیں۔
قارئین! اس مسجد کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ایک روز جنید خان جمعہ پڑھنے ایک قریبی مسجد چلے گئے۔ نمازیوں کی بھیڑ کی وجہ سے اُن کو جگہ نہیں ملی۔ پس انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے دفتر کے احاطے میں مسجد بنائیں گے۔ مسجد کی تعمیر پر تقریباً 6 ماہ کام جاری رہا، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں مسجد بن رہی ہے۔ ایک دن مَیں جنید خان صاحب سے کَہ رہا تھا کہ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو، تو پہلی نماز کی امامت کے لیے کسی اچھے آدمی کو مدعو کریں گے۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا۔ اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر نے جواباً کہا کہ بہت سے اچھے لوگوں کو مدعو کریں گے۔ مَیں نے بھی جواب دیتے ہوئے کہا کہ امامت کے لیے تو ایک ہی آدمی مہراب میں کھڑا ہوگا۔
اس کے بعد ہم زیرِ تعمیر مسجد کو دیکھنے چلے گئے۔ مسجد میں کاریگر کام کررہے تھے اور کام آخری مرحلوں میں تھا۔ اب گذشتہ جمعہ کو بغیر کسی تقریب کے ہم نے نئی مسجد میں جمعہ پڑھی۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے بھی اس مسجد میں جمعہ پڑھی گئی تھی، لیکن اس میں ڈپٹی کمشنر موجود نہیں تھے، وہ کسی کام سے آوٹ آف سٹیشن تھے۔
یہ مسجد کسی ریا کے بغیر تعمیر ہوئی ہے۔ اس لیے اس کی شان نرالی ہے۔ اس میں جو کیفیت نمازی پر طاری ہوتی ہے، وہ اللہ جانتا ہے…… یا وہ نمازی۔ مسجد کے ہال اور دالان میں تین سو نمازیوں کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ اس کے تمام اخراجات ڈپٹی کمشنر جنید خان صاحب نے نہایت رازداری سے اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔ مسجد میں الگ وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔ استنجا خانے غسل خانوں کی طرز پر بنے ہیں۔ مسجد میں دفاتر سے نمازیوں کے لیے الگ راستہ بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب وکلا حضرات کے لیے بار روم سائیڈ سے مسجد میں داخلے کے لیے الگ راستہ ہے۔ اب دفاتر میں کام کرنے والے نماز کے اوقات میں نئی مسجد میں با جماعت نماز ادا کریں گے۔ مسجد سے باہر ایک دیوار پرتختی لگی ہے جس پر یہ تحریر پڑھنے کو ملتی ہے: ’’جنید خان…… طالب دعا۔‘‘
میری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالا، جنید خان کی اس کاوش کو اپنے در میں قبول فرماوے اور اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی ان کو اس کا صلہ دے، آمین، ثم آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں