موجودہ صوبائی حکومت اور خاص کر صوبائی وزیر برائے لایو سٹاک و فشریز محیب اللہ نے ملاکنڈ اور ہزارہ میں جس طرح ٹراوٹ فش فارمنگ کا جال بچا کر ٹراوٹ مچھلی کی ایک عام شہری تک رسائی ممکن بنائی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ان کی اس کاوش کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھاجائے گا…… لیکن حالیہ سیلاب نے ضلع سوات میں جس طرح گھروں، کھیتوں، ہوٹلوں، دُکانوں اور انفراسٹرکچر کو درہم برہم کردیا، اسی طرح ٹورازم سیکٹر اور ٹراوٹ مچھلیوں کی تقریباً نصف سے زیادہ ہچریاں بھی دریا برد ہوئیں، جن میں قابل ذکر مدین چیل، سخرہ، لالکو، سُلاتنڑ،بشیگرام، تیرات اور مانکیال کے خوڑ پرآباد تھیں۔ ان ہچریوں میں کچھ ٹورسٹ ڈسٹی نیشنز میں نہ صرف ٹورسٹ حضرات اور لوکل خریداری کے لیے جاتے تھے، بلکہ کچھ ہچریوں میں بنے ریسٹورنٹوں میں سیاحوں کے لیے تازہ مچھلیاں موقع پر پکڑ کر پکانے کا انتظام بھی موجود تھا۔ اس وجہ سے ٹراوٹ مچھلی سیاحوں میں سوات کی سوغات کے طور پر مشہور تھی…… اوریہاں کے لوگ مہمانوں اور سیاحوں کو کھانے میں ایک ضروری آئٹم کے طور پر پیش کرتے تھے۔
ان مقامات اور ٹراوٹ سنٹرز میں ’’چیل ٹراوٹ پارک ہوٹل‘‘ سب سے پہلا اور مشہور ٹراوٹ سنٹر تھا، جو حاجی محمد اسماعیل نے بنایا تھا۔ اس کی ٹراوٹ فش فارمنگ میں قابلِ قدرخدمات ہیں۔ ٹراوٹ پارک بعد میں ان کے بیٹوں عثمان علی، حیدر علی وغیرہ نے وسیع کرکے ملکی سطح پر اس کی ایک الگ پہچان بنائی۔ سیاح سوات کالام جاکر یہاں رُکتے تھے اور تازہ ٹراوٹ خود پکڑ اور پکا کر کھاتے تھے۔ تاہم حالیہ سیلاب میں ٹراوٹ پارک سمیت زیادہ تر چھوٹی بڑی پرائیویٹ ہچریاں دریا بُرد ہوچکی ہیں۔ اور جن کی عمارت کچھ کچھ بچی ہے، ان کی مچھلیاں پانی سپلائی رُکنے کی وجہ سے مرگئے ہیں۔ ٹراٹ پارک سے منسلک پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری ٹراوٹ ہچری بھی اسی سیلاب سے جزوی طور پر خراب ہوئی ہے۔ ہچنگ روم مکمل تباہ اور اس میں موجود مچھلیاں دریا برد ہوچکی ہیں۔
چوں کہ ٹراوٹ مچھلی ٹھنڈے اور تازہ پانی میں پلتی ہیں، اس لیے مدین چیل،شنکو، سخرہ، لالکو، سُلاتنڑ،بشیگرام، تیرات، مانکیال اور اُتروڑ وغیرہ کا پانی اس کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ زیادہ ترہچریاں بھی مذکورہ جگہوں میں بنائی گئی تھیں۔ ’’پروٹیکشن وال‘‘ تقریباً سب نے بنا رکھی تھی، لیکن حالیہ سیلاب ہچریاں بہا کر لے گیا، جس سے نہ صرف ٹراوٹ کی نسل کشی ہوئی بلکہ فش فارم والوں کی کئی سالوں کی محنت کو بھی داؤ پر لگ گئی۔
ایک دوست کے مطابق وہ ٹراوٹ فش کو انڈوں سے لے کر بچوں اور مارکیٹ سائز تک مچھلی کو انتہائی نگہداشت سے پالتے ہیں۔ وہ بالکل ایسے پالتے ہیں جیسے لوگ اپنے بچوں کو پالتے ہیں۔ ان کی ایک کلو خوراک کی قیمت 180سے لے کر 200 روپے تک ہے۔یہ خوراک ’’رِچ وٹامن‘‘ اور ’’پروٹین‘‘ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک فش فارمریومیہ ہزاروں روپے کی خوراک ڈال کرانھیں پالتا ہے۔
پاکستان میں ٹراوٹ مچھلی کی نسل 1961ء میں والی سوات نے متعارف کی تھی، جو اصل میں یورپ اور جاپان سے منگوائی گئی تھی۔ سوات کے گاؤں مدین چیل خوڑ کا پانی اور جگہ دونوں اس کے لیے موزوں قرار پائے، جس کے لیے حاجی محمد اسماعیل نے حکومتِ وقت کو اپنی زمین دے دی۔ باقی ماندہ زمین پر 1992ء میں ٹراوٹ پارک بنایا گیا۔ ٹراوٹ کی نسل رفتہ رفتہ محکمۂ فشریز کے اہلکاروں کی دن رات محنت کی بدولت بڑھ گئی۔ پھر پرائیویٹ فش فارمرز کو بھی اسے پالنے کا موقع دیا گیا۔
سوات کے پرایؤیٹ فش فارمرز کی محنت کی بدولت براؤن ٹراوٹ، ریمبو اور کیملوپ کے علاوہ دوسرے نایاب سپیشیز مثلاً بروک، سالمن اور گولڈن ٹراوٹ بھی متعارف ہوچکی ہیں۔ ان فش فارمرز میں میکائل خان سخرہ، خورشید عالم لالکو، ملک ارشد سلاتنڑ، اکرام تیرات، نظام مانکیال اور عثمان علی و حیدر علی مدین چیل خوڑ قابلِ ذکر ہیں۔
مدین کی ہچریوں سے ٹراوٹ مچھلی اور ان کے سیڈز ملک کی بڑی بڑی مارکیٹوں اور ہوٹلوں سے دوسرے اضلاع کی ہچریوں کو سپلائی ہوتا تھا، تاہم اب حالیہ سیلاب نے یہ ہچریاں ختم کردی ہیں۔ سیلاب نے نہ صرف ان فش فارمرز کی کمر توڑ دی ہے، بلکہ ان کے ساتھ جو ہزاروں کی تعداد میں ملازمین وابستہ تھے، ان کے گھروں کا چولہا بھی ٹھنڈا پڑگیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 221ہچریاں تھیں، جن میں 70 فی صد مکمل تباہ ہوچکی ہیں، جب کہ 30 فی صد کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ کیا حکومتِ وقت ان فش فارمرزکے ہونے والے نقصانات کا اِزالہ کرسکے گی…… اور ان کو فش فارم اور ٹراوٹ سنٹرز بنانے میں معاونت کرے گی؟ کیوں کہ مذکورہ ہچریاں نہ صرف ہمارے ٹورازم کے پروموشن میں اہم کردار ادا کررہی تھیں، بلکہ قومی سطح پر عوام تک مچھلی مناسب قیمت کے عوض پیش کی جاتی تھی۔
اگر دیکھا جائے، تو پہلے ٹراوٹ مچھلی تک رسائی صرف مال دار لوگوں کی تھی، لیکن آج کل اس کی قیمت ایک فارمی مرغی کی قیمت کے برابر ہے۔ہر ایک فش فارمر بشمول سرکاری فش فارمز نے لاکھوں کے حساب سے ٹراوٹ کی افزائش کی اور غریب لوگ بھی تقریباً 800 سے 1000 تک کلو لے کرحاصل کرتے تھے۔ تاہم اب یہ مچھلی پھر سے نایاب ہوجائے گی۔
کیا فیڈرل فشریز ڈیولپمنٹ بورڈ اور صوبائی فشریز محکمہ کے پاس پرائیویٹ فش فارمز کی بحالی کے لیے کوئی پلان ہے؟